ٹی وی شو کے لیے ایناکونڈا کی خوراک بننے کی حقیقی رُوداد
8 دسمبر 2014ایمیزون کے جنگل اور دلدلی و آبی علاقے، جسمات کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے سانپ کا گھر تصور کیا جاتا ہیں۔ اِس سانپ کو ایناکونڈا کہا جاتا ہے۔ یہ بچھڑا ہو یا سالم انسان، بڑی آسانی سے نگل جاتا ہے۔ بعد میں نگلے ہوئی خوراک کو وہ جسم اکڑا کر ہلاک کر دیتا ہے اور بسا اوقات اناکونڈا کے معدے میں سانس میسر نہ ہونے سے بھی جانور یا انسان ہلاک ہو جاتا ہے۔ نیچرلسٹ پال روزولی نے لوگوں کو اکٹھا کر کے خود کو ایناکونڈا کو نگلنے کا موقع فراہم کیا۔ وہ سانپ کے پیٹ کے اندر جا کر زندہ و سلامت واپس آنے میں بھی کامیاب ہوئے۔
پارل روزولی نے ایناکونڈا کے پیٹ میں جانے کے لیے ایک خصوصی لباس تیار کروایا تھا۔ لباس تیار کرنے والے ماہرین نے کاربن فائبر سے تیار ہونے والے لباس میں اضافی آکسیجن مہیا کی تا کہ روزولی ایناکونڈا کے پیٹ میں جا کر کچھ دیر تک سانس لیتے رہیں۔ اِس لباس میں کیمرے بھی نصب کیے گئے تھے تا کہ جب وہ ایناکونڈا کے پیٹ میں جائیں تو اندر کی صورت حال کی عکاسی کی جا سکے۔ اسی طرح لباس میں باہر کھڑے عملے کے ساتھ رابطے کے نظام کو بھی نصب کیا گیا تھا۔ روزولی کے مطابق کوشش کی گئی تھی کہ سانپ کے پیٹ میں جا کر کسی طور پر اُن کا دم گھٹنے نہ پائے۔ ساٹھ دن کی محنت کے بعد بیس فیٹ یا چھ میٹر لمبائی رکھنے والی مادہ ایناکونڈا دستیاب ہو گئی۔ روزولی کے مطابق سانپ نے فوراً نگلنے کی کوشش نہیں کی بلکہ انہوں نے ایناکونڈا کو مشتعل کیا تو اُس نے انہیں نگل لیا۔ وہ ایک گھنٹے تک اناکونڈا کے پیٹ میں رہے۔ اس دوران اُن کا رابطہ ان کے ساتھیوں کے ساتھ قائم رہا۔ انہوں نے سانپ کے پیٹ سے باہر آنے کی تفصیلات فراہم نہیں کی۔
بظاہر پال روزولی کا یہ اسٹنٹ انتہائی خطرناک تھا لیکن وہ ایناکونڈا کے معدے میں دم گھٹنے سے ہلاک نہیں ہوئے۔ اُنہوں نے یہ انتہائی فیصلہ ایمیزون کے جنگلوں کو کٹائی سے محفوظ رکھنے کی خاطر کیا۔ روزولی کے مطابق وہ چاہتے ہیں کہ ایمیزون کے برساتی جنگلات کا قدرتی ماحول کٹائی کے عمل سے محفوظ کیا جا سکے۔ وہ گزشتہ ایک دہائی سے ایمیزون کے جنگلات کو محفوظ رکھنے کی مہم چلائے ہوئے ہیں۔ اُن کی ایناکونڈا کے پیٹ میں جانے کی خطرناک مہم امریکا کے ڈسکوری چینل پر اتوار کی رات نشر کی گئی۔
فطرت سے محبت اور لگاؤ رکھنے والے پال روزولی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ساری دنیا میں ہر کوئی یہ جانتا ہے کہ برساتی جنگلوں کو کاٹ کاٹ کر نابود کیا جا رہا ہے اور لوگوں کے علاوہ حکومتیں بھی اِس کٹائی کے عمل میں کسی نہ کسی طور پر شریک ہیں۔ روزولی کا اشارہ دنیا کے کئی ملکوں میں ٹمبر مافیا کی جانب تھا۔ انہوں نے لوگوں سے کہا کہ وہ جنگلات کے ماہرین سے پوچھیں کہ برساتی جنگل زمین اور انسانوں کے لیے کتنے اہم ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ دنیا کے بیشتر لوگ اِس مسئلے کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔