بھارتی سپریم کورٹ نے ملک کے ٹی وی چینلوں کی سرزنش کی
14 جنوری 2023بھارتی سپریم کورٹ نے ملک کے ٹیلیویژن چینلز پر نشر ہونے والے نفرت انگیز مواد پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک ’مکمل خطرہ ہیں‘۔ عدالت عظمی نے ٹی وی پر نشر ہونے والی خبروں کے مواد پر ریگولیٹری کنٹرول کی کمی پر بھی افسوس کا اظہار کیا اور کہا، ’’بھارت میں جانبدار کے بجائے ایک ’آزاد اور متوازن پریس‘ کی ضرورت ہے‘‘۔
بھارت: بی جے پی لیڈر کی شکایت پر معروف صحافیوں کے گھروں پر چھاپے
عدالت ملکی سطح پر نشر ہونے والے نفرت انگیز مواد پر روک لگانے اور مجرموں کے خلاف کارروائی کرنے سے متعلق مختلف درخواستوں کی سماعت کر رہی تھی۔ اس معاملے میں جسٹس کے ایم جوزف اور بی وی ناگارتھنا کی دو رکنی بینچ سماعت کر رہی تھی۔
بھارت: پلٹزر انعام یافتہ کشمیری صحافی کو باہر جانے سے روک دیا
بھارت میں ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی بیشتر ٹی وی چینلز دن رات اسلامو فوبیا، مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ اور سخت گیر ہندو قوم پرستوں کی حمایت میں پروگرام نشر کرتے رہتے ہیں۔ اسی پر کنٹرول کے لیے بہت سے غیر سرکاری اداروں نے عدالت سے رجوع کیا تھا۔
امریکی میڈیا پر بھارت کی تنقید اور کشمیر پر مودی کے فیصلوں کا دفاع
عدالت نے کیا کہا؟
سپریم کورٹ نے کہا کہ آج کل ہر چیز ٹی آر پی (ٹیلی ویژن ریٹنگ پوائنٹ) سے چلتی ہے اور چینل ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے کی کوشش میں معاشرے میں تقسیم پیدا کر رہے ہیں۔
کشمیر میں مسجد، مولوی، مدرسے اور میڈیا سب کیسے خاموش کیے گئے؟
سپریم کورٹ نے کہا کہ اگر کوئی ٹی وی نیوز اینکر خود نفرت انگیز مواد کی تشہیر کا حصہ بن جائے، تو پھر انہیں ہٹایا کیوں نہیں جاتا؟ عدالت عظمی نے کہا، ’’نفرت انگیز مواد ایک مکمل خطرہ بن چکا ہے، اسے روکنا ہو گا‘‘۔
میڈیا ٹرائل پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بنچ نے ایئر انڈیا کی فلائٹ میں ایک شخص کے مبینہ طور پر ساتھی خاتون مسافر پر پیشاب کرنے کے حالیہ واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’اسے گالیاں تک دی گئیں۔ میڈیا والوں کو سمجھنا چاہیے کہ یہ کیس ابھی زیرِ سماعت ہے اور اس کی تذلیل نہ کی جائے۔ ہر ایک شخص کا اپنا ایک وقار و احترام ہوتا ہے‘‘۔
جسٹس جوزف نے کہا، ’’وہ ہر چیز کو سنسنی خیز بنا دیتے ہیں اور بصری عنصر کی طاقت کی وجہ سے معاشرے میں تقسیم پیدا کرتے ہیں۔ اخبار کے برعکس، بصری میڈیم آپ کو بہت زیادہ متاثر کر سکتا ہے اور بدقسمتی سے سامعین اس قسم کے مواد کو دیکھنے کے لیے ابھی اتنے بالغ ہیں نہیں‘‘۔
جج موصوف کا کہنا تھا کہ متعدد بار لائیو مباحثوں کے دوران اینکر خود اس مسئلے کا حصہ بن جاتے ہیں کیونکہ وہ یا تو پینل میں بیٹھے دوسرے فریق کی آواز کو خاموش کر دیتے ہیں یا انہیں جوابی نقطہ نظر پیش کرنے کی اجازت ہی نہیں دی جاتی ہے۔
جسٹس ناگارتھنا کا کہنا تھا کہ اگر ٹی وی چینلز نفرت انگیز مواد کی تشہیر کرنے کے لیے ضابطے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں تو ان کے انتظامیہ کے خلاف بھی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ہم بھارت میں آزاد اور متوازن پریس چاہتے ہیں‘‘۔
حکومت کی لاپراوہی
عدالت نے کہا کہ پرنٹ میڈیا کے برعکس، نیوز چینلز کے لیے 'پریس کونسل آف انڈیا' جیسا کوئی ادارہ نہیں ہے۔ بینچ کا کہنا تھا، ’’ہم آزادی اظہار چاہتے ہیں، لیکن یہ کس قیمت پر ہونا چاہیے‘‘۔
'نیوز براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن' کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ ایک برس کے دوران ہزاروں شکایات موصول ہوئیں اور چینلز کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔
اس پر عدالت کی دو رکنی بینچ نے کہا، ’’لائیو پروگرام میں، پروگرام کے منصفانہ ہونے کی چابی اینکر کے پاس ہوتی ہے۔ اگر اینکر منصفانہ نہیں ہے، تو وہ اسپیکر کو خاموش کر کے یا پھر دوسرے سے سوال نہ پوچھ کر جواب نہیں آنے دیتا ہے۔ یہ صریحاً تعصب کی علامت ہے‘‘۔
عدالت نے سرکاری وکیل سے پوچھا کہ آخر، ’’اینکر کے خلاف کتنی بار کارروائی ہوئی ہے؟ میڈیا والوں کو یہ سبق لینا چاہیے کہ وہ بڑے عہدوں پر فائز ہیں اور معاشرے پر ان کا گہرا اثر ہے۔ وہ مسئلہ کا حصہ نہیں بن سکتے اور نہ اپنی مرضی کے مطابق جو چاہیں بول سکتے ہیں‘‘۔
جسٹس جوزف نے کہا کہ نیوز اینکر یا ان کی انتظامیہ کے خلاف کارروائی شروع ہو جائے تو سب سدھر جائیں گے۔
عدالت نے مرکز کی طرف سے پیش ہونے والے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل سے کہا کہ آزادی اظہار اور اظہار رائے ایک بہت اہم اور نازک چیز ہے۔ حکومت کو اس میں مداخلت کیے بغیر کچھ کارروائی ضرور کرنی چاہیے۔
ایڈیشنل سالیسٹر جنرل کے ایم نٹراج نے کہا کہ مرکزی حکومت اس مسئلے سے واقف ہے اور نفرت انگیز تقاریر کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے کوڈ آف کریمنل پروسیجر (سی آر پی سی) میں ترمیم کرنے پر غور کر رہی ہے۔