1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹیچر کے نام ایک جذباتی خط

5 اگست 2021

مس کیرل اگر آپ ابھی بھی اس اسکول میں پڑھا رہی ہیں تو میں آپ سے گزارش کرنا چاہتی ہوں کہ کبھی کسی چھوٹے بچے کو دوبارہ طمانچہ مت ماریے گا۔

https://p.dw.com/p/3yahD
DW Urdu Blogerin Sana Batool
تصویر: Privat

 ڈئیر مس کیرول،

امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گی۔ 

آج سر اٹھا کے آسمان کی جانب دیکھا تو اتنا ہی گہرا نیلا تھا، جتنا اس دن جب دیر سے فیس جمع کرانے پر آپ نے ایک 5 سال کی بچی کے منہ پر اس کی پوری کلاس کے سامنے تھپڑ مارا تھا اور اس نے سب سے نظریں چراتے ہوئے آسمان کی جانب دیکھا تھا تو آنسو خود ہی آنکھوں کے کٹوروں سے نکل کر کان بھرنے لگے تھے۔

آپ سمجھتی ہوں گی کہ جسم کو تکلیف دے کر آپ نے ٹیچر ہونے کا حق ادا کر دیا۔ لیکن آپ کے تھپڑ کے نشان میں آج بھی اپنی روح پر محسوس کرتی ہوں۔ 

آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ شاید آپ کی زندگی بہت تلخ تھی یا آپ کسی ذہنی دباؤ میں تھیں، یا آپ نے سوچا ہوگا کہ  ایسا کر کے آپ ان ننھے دلوں میں اپنا خوف بٹھا پائیں گی؟

مس کیرول آپ شاید نہیں جانتیں کہ مجھے پڑھنے کا بے حد شوق تھا، لیکن اس دن کے بعد اور پھر اسکول میں آنے والے ہر دن مجھے اسکول سے نفرت ہو گئی تھی۔ 

یہ بھی پڑھیے: تعلیم اور بچپن پر نفسیاتی دباؤ

اسکول کے نام سے میرا دل حلق میں آجاتا تھا۔ میرے دل میں اس وقت تک اتنا خوف بیٹھ چکا تھا کہ میں کلاس مانیٹر سے بھی ڈرنے لگی تھی۔ آپ جب تک میری کلاس ٹیچر رہیں، مجھے ڈفر ہی کہ کر مخاطب کرتی تھیں۔

تب میرا چھوٹا سا دماغ ڈفر کا مطلب نہیں جانتا تھا لیکن میرے علم میں اسکول کے اوائل میں یہ اضافہ ضرور ہوا کہ آپ کے مطابق میں ڈفر تھی اور میں نے آپ کی بات پر یقین کر لیا تھا کیونکہ آپ میری استاد تھیں۔

فاطمہ، عمر چھوٹی مگر سوچ بڑی

آپ ایسا نہ کرتیں تو شاید میں اسکول کے آنے والے 9 سال خوف میں نہ گزارتی۔یہ سوچ کر نہ گزارتی کہ میرے اندر کچھ کرنے کی صلاحیت نہیں۔ جب آپ زور سے کلاس میں چیختی تھیں تو میرا دل چاہتا تھا کہ میں وہاں سے کہیں دور بھاگ جاؤں۔ مس آپ کو نہیں معلوم، استاد شفیق ہوتے ہیں، رحم دل ہوتے ہیں، علم کا در ہوتے ہیں، یہ سب باتیں مجھے دسویں جماعت  میں جاکر پتہ چلیں۔  

میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ ٹیچر مس عائشہ جیسی بھی ہوتی ہیں، جنہوں نے پہلے ہی دن کلاس میں مجھے دیکھ کر کہا تھا، "مجھے آپ پر پورا بھروسہ ہے آپ کر سکتی ہیں۔" ان کے اس جملے نے سالوں سے جمی خوف کی گرد کو میرے دل سے صاف کر دیا تھا۔ 

مجھے یاد ہے اس دن میں کتنا خوش تھی۔ ہر شخص کو گھر پہ بتایا کہ مس مجھ سے خوش ہیں۔ انہوں نے مجھے کلاس کے بعد بھی پڑھایا لیکن مس کیرل، کلاس کے بعد ان کے پاس جاکر اپنا سوال رکھنے کی ہمت بھی انہوں نے ہی مجھے دی۔

 استاد روحانی والدین ہوتے ہیں، اس بات کا اندازہ بھی مجھے ان کی کلاس میں ہی ہوا۔ میں آپ  پر الزام نہیں دھر رہی، بس ایک شکوہ ہے کہشائد آپ کو علم نہیں کہ ایک تھپڑ ، چیخ کر بات کرنا اور غصے کی نظر، چھوٹے بچوں میں کس قدر خوف پیدا کر سکتے ہیں، اور ان کی خود اعتمادی پر کیسے اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ 

یہ بھی پڑھیے: آن لائن تعلیم کے بچوں پر نفسیاتی اثرات

شاید یہی وجہ تھی کہ کئی سالوں بعد جب میں نے کالج میں پڑھانا شروع کیا تو پہلے دن ماس کمیونیکیشن نہیں بلکہ اپنے اسٹوڈنٹس کو یہ بتایا کہ وہ کتنے اہم ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ میں سے کوئی بچہ ڈفر نہیں، کیونکہ اس دنیا میں کوئی ڈفر پیدا نہیں ہوتا، بلکہ حالات اس کی خود اعتمادی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ 

مس کیرل اگر آپ ابھی بھی اس اسکول میں پڑھا رہی ہیں تو میں آپ سے گزارش کرنا چاہتی ہوں کہ کبھی کسی چھوٹے بچے کو طمانچہ مت ماریے گا۔

آپ مجھے ڈفر کہتی تھیں لیکن میں نے تو بیچلر بھی کیا اور ملک کی سب سے اچھی یونیورسٹی سے ماسٹرز بھی۔ اس کا سہرا بھی میرے اساتذہ کو ہی جاتا ہے، جن کے چند جملے "آپ کر سکتی ہیں" آپ کر لیں گی" "مجھے آپ پر پورا بھروسہ ہے" نے میری زندگی تبدیل کردی۔

میرے اندر خود اعتمادی کا طوفان، لگن، سب میرے اساتذہ نے ہی پیدا کیا۔ وہ اساتذہ جو اپنے طالب علموں کے ساتھ شفقت کا برتاؤ کرتے ہیں۔

میں نے بھی کرکے دیکھا اور اس کے بدلے مجھے اپنے اسٹوڈنٹس سے محبت ملی، عزت ملی۔ 

  یہ سب آپ بھی کر سکتی ہیں مس کیرل۔ محبت، شفقت سے پیش آنا مشکل کام نہیں ہوتے۔ 

آپ کا  اعتماد ایک چھوٹا سا اظہار آپ کے اسٹوڈنٹس کے اندر کس قدر خوداعتمادی پیدا کرسکتا ہے اس بات کا  آپ کو اندازہ بھی نہیں ہے شاید۔ 

یہ بھی پڑھیے:علم طاقت ہے اور تعلیم کیوں ضروری ہے

میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ ہر بچہ ذہین ہوتا ہے۔ ہر بچہ جو چھوٹی سی عمر میں علم کے حصول کے لیے باہر نکلتا ہے وہ شاید اس پوری دنیا میں اپنے گھر کو یا اپنے اسکول کو محفوظ جگہ سمجھتا ہے۔ جہاں اسے کوئی خوف نہیں ہوتا، جہاں اس کے دوست، اساتذہ ہوتے ہیں۔

لیکن مس کیرل، آپ کے سلوک کی وجہ سے میرا کوئی دوست بھی نا بن سکا۔ وہ یہی سمجھتے تھے کہ میں ڈفر ہوں اور مجھ سے دوستی نہیں کرنا چاہتے تھے۔آہستہ آہستہ میں خاموش ہوتی چلی گئی۔ کلاس میں بات کرنے سے ڈرنے لگی۔ مجھے لگتا تھا کہ میں جو بھی کروں گی جو بھی کہوں گی وہ غلط ہی ہو گا۔  

آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ آج بھی کتنے ہی بچے ایسے ہیں جو اعتماد کی کمی کے کرب سے گزر رہے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کو چھپا رہے ہیں۔ 

کاش آپ نے کسی اور کے ساتھ ایسا نہ کیا ہو۔ اور کاش اگر آپ نے کیا بھی ہو تو کسی شفیق استاد نے ان کی زندگی میں آکر شفقت و محبت کی چابی سے خوف و بے اعتمادی کا تالا کھول دیا ہو۔ 

آپ کی ایک پرانی طالبہ

سیدہ ثنا بتول