ٹیکس کی عدم ادائیگی کے پاکستانی معیشت پر اثرات
26 اگست 2015مالی سال 2014ء اور 2015ء کے دوران پاکستان کی معیشت میں4.24 فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور اسی طرح فی کس آمدنی بھی نو اعشاریہ دو پانچ فیصد بڑھی ہے، جس سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی کافی حد تک بحال ہوا ہے۔ برطانوی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی’ ڈی آئی ایف ڈی‘ کے تعاون سے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ’رفتار‘ کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت مسلسل تجارتی اور رعایتی قرضوں اور غیر ملکی امداد پر انحصار کر رہی ہے۔
ٹیکس سے لے کر مجموعی قومی پیداوار تک کی شرح نو اعشاریہ چار فیصد ہے، جو پوری دنیا میں سب سے کم ترین شرح میں سے ایک ہے، جس سے ریاستی قرضے میں بھی ایک سو تریسٹھ بلین ڈالرز تک کا اضافہ ہو گیا ہے۔
رپورٹ میں یہ الزام بھی لگا یا گیا ہے کہ سرکاری سطح پر بد انتظامی اور بدعنوانی کی وجہ سے پاکستان میں ٹیکس کی ادائیگی کا رواج بھی عام نہیں ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق 68 فیصد ٹیکس کی رقم ایندھن، خوراک اور بجلی یا توانائی پر عائد کیے جانے والے بلاواسطہ ٹیکس سے پوری کی جاتی ہے۔ اس صورتحال سے سب سے زیادہ نقصان غریب عوام کو پہنچ رہا ہے۔
ٹیکس کی عدم ادائیگی کی وجہ سے ملک کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور بجلی کی پیداوار پر بھی منفی اثرات مرتب ہو ر ہے ہیں۔ جیسا کہ اس سال مرسم گرما میں ملک میں بجلی کا شارٹ فال چار ہزار میگا واٹ تک پہنچ گیا تھا اور جس سے ملک کی مجموعی قومی پیداوار کو تقریباً پندرہ بلین ڈالرز کا نقصان پہنچا ہے۔
حال ہی میں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی جانب سے پاکستان کو چھ اعشاریہ چھ بلین ڈالرزکا قرض اس شرط پر دیا گیا ہے کہ پاکستان توانائی اور ٹیکس کے اپنے شعبوں میں وسیع پیمانے پراصلا حات کرے گا۔