ٹیکسلا، انسانی تاریخ کا عظیم ورثہ
ضلع راولپنڈی کی تحصیل ٹیکسلا میں اسی نام کا قدیم شہر دارالحکومت اسلام آباد سے بتیس کلومیٹر شمال مغرب میں واقع ہے۔ ٹیکسلا میں زمانہ قبل ازمسیح کی عظیم باقیات یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں بھی شامل ہیں۔
نازک لیکن تاحال محفوظ
یہ تصویر ماہرین آثار قدیمہ کو موہڑہ مرادو کے ایوان مجلس کے کمرہ نمبر نو سے ملنے والے ایک ایسے سٹوپا کی ہے، جو ہے تو چونا مٹی کا بنا ہوا لیکن جو صدیاں گزر جانے کے باوجود ابھی بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔ اسی خانقاہ سے ماہرین کو چونا مٹی کے بنے ہوئے مجسمے بھی ملے۔ موہڑہ مرادو سے ملنے والے دیگر نوادرات میں کھانے پینے کے برتن، گھریلو استعمال کا سامان، مختلف اوزار اور تانبے کے برتن بھی شامل ہیں۔
ٹیکسلا میوزیم
ٹیکسلا میوزیم پاکستان کے خوبصورت ترین عجائب گھروں میں سے ایک ہے۔ ہری پور روڈ پر واقع اس میوزیم کا نقشہ لاہور کے میو اسکول آف آرٹس (موجودہ نیشنل کالج آف آرٹس) کے پرنسپل سلیوان نے تیار کیا تھا اور اس کی بنیاد برٹش انڈیا کے وائسرائے لارڈ چیمسفورڈ نے رکھی تھی۔ اس میوزیم میں ٹیکسلا سے دریافت شدہ 700 سے زائد نوادرات محفوظ ہیں لیکن عجائب گھر کے اندر فوٹوگرافی کی اجازت نہیں ہے۔
سِرکپ
سِرکپ شہر کی تاریخی باقیات ٹیکسلا میوزیم سے قریب دو کلومیٹرکے فاصلے پر ہیں۔ دوسری صدی قبل ازمسیح میں باختر کے یونانی ٹیکسلا پر حملہ آور ہوئے تو موریہ سلطنت ختم کر کے انہوں نے اپنی حکومت قائم کی اور ایک نیا شہر سِرکپ آباد کیا۔ یہ شہر شطرنج کی بساط کی طرز پر آباد کیا گیا تھا۔ سیدھی گلیوں اور بازار کے باعث اس کے کھنڈرات بھی بہت منفرد ہیں۔ یہ شہر ایک ایسی فصیل کے اندر آباد تھا، جس میں چار دروازے تھے۔
مختلف نام
ٹیکسلا کا قدیم شہر دریائے سندھ اور دریائے جہلم کے درمیانی علاقے میں واقع ہے۔ سنسکرت میں یہ تکشاسلا اور مقامی طور پر تاکاسلہ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یونانیوں اور رومیوں نے اسے ٹیکسلا کہا۔ یہ شہر زمانہ قدیم کے تین اہم تجارتی راستوں کے سنگم پر واقع ہونے کی وجہ سے ایک بڑا تجارتی مرکز تھا۔ جنوبی ہند، مغربی اور وسطی ایشیائی تجارتی راستے یہیں پر ملتے تھے۔
قدیم جین مندر
قدیم یورپی اقوام سکندر اعظم کے ہندوستان پر حملے کے وقت سے ٹیکسلا کے نام سے واقف تھیں۔ چھٹی صدی قبل از مسیح میں ٹیکسلا ایران کا ایک صوبہ تھا۔ بعد کی صدیوں میں یہ شہر کم از کم سات ادوار میں مختلف نسلوں کے شاہی خاندانوں کی حکمرانی میں رہا۔ اس تصویر میں وہ جگہ نظر آ رہی ہے، جہاں صدیوں پہلے ایک بڑا جین مندر موجود تھا۔
بازار جو اب کھنڈر ہیں
ٹیکسلا کی قدیم تہذیب کی باقیات کی تلاش کے لیے پہلی مرتبہ کھدائی برطانوی نو آبادیاتی دور میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے 1913 میں شروع کی تھی جو 1934 تک جاری رہی۔ پھر پاکستان بننے سے پہلے اور بعد میں بھی بہت سے مشہور یورپی اور پاکستانی ماہرین آثار قدیمہ یہاں کھدائی کرتے رہے۔ اس تصویر میں جہاں خشک گھاس اور پتھر نظر آ رہے ہیں، وہاں صدیوں پہلے بھرے بازاروں میں انسانوں کی چہل پہل ہوتی تھی۔
موہڑہ مرادو
ٹیکسلا میوزیم سے مشرق کی سمت قریب پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر خانقاہ موہڑہ مرادو واقع ہے۔ یہ ایک بدھ عبادت گاہ، ایک مرکزی سٹوپا اور ایک خانقاہ کی باقیات پر مشتمل ہے، جہاں پجاریوں کے رہائشی کمرے،ان کا ایوان، باورچی خانہ غسل خانے اور گودام ہوا کرتے تھے۔ تصویر میں نظر آنے والی باقیات اس امر کا پتہ دیتی ہیں کہ اس دور میں بھی کتنے تعمیراتی نظم و ضبط سے کام لیا گیا تھا۔
سٹوپے اور خانقاہیں
وادی ٹیکسلا میں کھدائی کے نتیجے میں تقریباﹰ دو درجن سے زیادہ سٹوپے اور خانقاہیں دریافت ہو چکے ہیں۔ ان میں دھرما راجیکا، جولیاں، موہڑہ مرادو، پیلاں، گڑی، بھمالا، جنڈیال، جناں والی ڈھیری، بادل پور، بھلڑ توپ، کنالہ اور کلاوان نامی مقامات شامل ہیں۔ اس تصویر میں ایسی ہی ایک خانقاہ سے ملنے والے متعدد مجسمے نظر آ رہے ہیں۔
دو ہزار سال پرانی باقیات
وادی ٹیکسلا سے ملنے والی بدھ مت کی عبادت گاہوں کی زیادہ تر باقیات پہلی صدی عیسوی سے پانچویں صدی عیسوی تک کے زمانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ دھرما راجیکا سٹوپا تیسری صدی عیسوی کے دور کا ہے، جسے 1980 میں یونیسکو نے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا۔ ان میں سے بہت سے تاریخی مقامات آج بھی حیران کن حد تک اچھی اور مضبوط حالت میں ہیں۔
قدیم ٹیکسلا کی یونیورسٹی
قدیم ٹیکسلا شہر کے کھنڈرات کے آخر میں شہزادہ کنالہ کے سٹوپا کی جانب ایک مرکزی اور شاندار مقام ایسا بھی آتا ہے، جو پاکستان کے معروف ماہر آثار قدیمہ پروفیسر دانی کے بقول وہی جگہ ہے جہاں کئی صدیاں پہلے ٹیکسلا کی مشہور یونیورسٹی قائم تھی۔
شہزادہ کنالہ کا سٹوپا
ٹیکسلا کی قدیم یونیورسٹی سے کچھ دور شہزادہ کنالہ کا سٹوپا ہے۔ اس سٹوپے کے قریب کبھی ایک شاندار عمارت قائم تھی۔ اب وہاں صرف اس عمارت کی پتھریلی باقیات ہی رہ گئی ہیں۔ اس مقام اور اس کے قرب و جوار میں کھدائی سے بھی ماہرین کو بہت سے قدیم سکوں کے علاوہ مٹی اور دھات کے بنے برتن ملے تھے۔