پابندی کے باجود عامر لیاقت کا پروگرام، سول سوسائٹی چراغ پا
27 جنوری 2017ساؤتھ ایشیا فری میڈیا ایسویسی ایشن کے جنرل سیکرٹری امتیاز عالم نے اس پر اپنا ردِ عمل دیتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’پابندی کے باوجود اس پروگرام کے نشر ہونے پر پاکستان کے تمام جمہوریت پسند، ترقی پسند اور قانون کی عملداری پر یقین رکھنے والے شہری غصے میں ہیں۔ اس اینکر نے ،جس کا میں نام لینا بھی پسند نہیں کرتا، آزادیٴ اظہار رائے کو گالی بکنے، لوگوں پر فتوے لگانے اور اشتعال پھیلانے کے لیے استعمال کیا۔ وہ اس آزادی کو لوگوں کے گلے کٹوانے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اس نے لوگوں کی زندگیا ں خطرے میں ڈال دی ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ صحافیوں نے پیمرا کی کسی پابندی کی خیر مقدم کیا ہے۔ بو ل چینل اس مسئلے کو ورکرز کے مسئلے میں تبدیل کرنا چاہتا ہے لیکن ورکرز کو اس معاملے پر بول کی انتظامیہ کا ساتھ دینا نہیں چاہیے۔‘‘
بلاگرز کی حمایت میں مہم چلانے والے فاروق طارق نے پیمرا کے قوانین کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا:’’عامر لیاقت کی طرف سے پیمرا کی پابندیوں کی خلاف ورزی یہ ظاہر کرتی ہے کہ پیمرا بے بس و لاچار ہے، ملک میں لاقانونیت ہے اور یہ انارکی کی طرف جا رہا ہے۔ قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ یقیناً عامر لیاقت کو ریاستی اداروں کی سر پرستی حاصل ہے ورنہ تو اس میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ پیمرا کے قوانین کی خلاف ورزی کرے۔ عامر لیاقت اپنے اقدامات کا جواز پیش کرنے کے لیے مختلف تاویلیں گھڑ رہا ہے۔ عجیب بات ہے کہ کچھ برسوں پہلے بول ریاستی عتاب کا شکار تھا اور اب ریاست کی آنکھ کا تارا بنا ہوا ہے۔ عامر لیاقت کی طرف سے پیمرا کی پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جمعرات کو پروگرام کرنے پر پوری سول سوسائٹی غصے میں ہے اور اس سے قانون کی عملداری کے متعلق حکومتی دعووں کی بھی پول کھل گئی ہے۔ اگر یہ خلاف ورزی جاری رہی تو ترقی پسندحلقے اور سول سوسائٹی اس کے خلاف بھر پور مہم چلائیں گے۔‘‘
اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے معروف تجزیہ نگار فرزانہ باری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’بول چینل پر جو کچھ ہو رہا ہے، وہ سول ملڑی تعلقات کی کشیدہ نوعیت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ایسا لگتاہے کہ حکومت اور ریاستی اداروں کے درمیان ایک پراکسی وار چل رہی ہے۔ حکومت کا وزیرِ داخلہ کہہ رہا ہے کہ لوگوں کو اغوا کرنا حکومت کی پالیسی نہیں ہے لیکن پھر بھی انہیں بازیاب نہیں کرایا جا سکا۔ اس کا ملطب ہے کہ اغوا کار حکومت کے کنڑول میں نہیں ہیں۔ یہ بلاگرز جو لکھ رہے تھے، وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تھا جب کہ بول جو کچھ بھی کر رہا ہے، وہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت میں جاتا ہے۔ اس کے باوجود میرا خیال ہے کہ سول حکومت جہاں بھی اپنی اتھارٹی دکھا سکتی ہے، وہاں وہ ایسا کرے گی اور پیمرا اپنے قوانین پر عملدرآمد کرانے کے لیے سارے طریقے استعمال کرے گا۔‘‘
وفاقی اردو یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکڑ توصیف احمد نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’بول کا بیانیہ آرمی نواز ہے لیکن یہ آرمی کا دفاع اتنے گھٹیا انداز میں کر رہے ہیں، جیسے کسی دور میں شام کے اخبارات حکومتوں کا دفاع کرتے تھے۔ اس سے خود آرمی کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے اور اگر یہ چینل اسی طرح گھٹیا انداز میں دفاع کرتا رہا تو پھر خود اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی مشکل ہو جائے گا کہ وہ اس کی حمایت کرے۔ یہ صحافت نہیں ہے ۔ یہ عامیانہ پن ہے۔ عامر لیاقت پابندی کے ذریعے ہمدریاں حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بول چینل مظلوم بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ میرے خیال میں اس پابندی سے عامر لیاقت کی مقبولیت رجعت پسند حلقوں میں بڑھے گی۔ عامر نے پابندی کے باوجود یہ پروگرام اس لیے کیا کیونکہ یہ چینل ایجنسیوں کا نمائندہ ہے۔‘‘
سینیٹر تاج حیدر نے اس حوالے سے اپنا موقف دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’عامر لیاقت نے جس طرح کے متنازعہ پروگرام کیے، اس کی وجہ سے مجھ سمیت سارے پاکستانی پریشان تھے لیکن اس طرح کے کاموں سے آپ لوگوں کو ڈرا نہیں سکتے۔ آج کی نسل کو اس طرح کے اقدامات سے ڈرایا نہیں جا سکتا۔ مسئلہ سیدھا سا تھا کہ بلاگرز کو اغوا کیا گیا ہے اور ان کو بازیاب کرایا جائے۔ پروگرام کے ذریعے تو اغوا کاروں کی پوزیشن کو مضبوط کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ انہیں بازیاب کرایا جائے اور ان پر اگر کوئی الزام ہے تو قانون کے مطابق کام کیا جائے۔ میرے خیال میں عامر لیاقت کو وارننگ دی جانی چاہیے اور اس کے بعد پیمرا کو قانو ن کے مطابق جو بھی اقدامات ہیں، وہ اٹھانے چاہییں۔‘‘
پاکستان میں ایسی اطلاعات گردش کر رہی ہیں کہ سندھ ہائی کورٹ نے عامر لیاقت کے پروگرام پر حکمِ امتناعی جاری کیا ہے لیکن اس کی تفصیلات ابھی جاری ہونا ہیں۔ جب اس حوالے سے پیمرا کے ترجمان ایم طاہر سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا، ’’ہم نے کل بروز جمعرات عامر لیاقت کے پروگرام پر پابندی لگائی تھی اور آج اس پابندی کی خلاف ورزی پر بول چینل کو شو کاز نوٹس جاری کیا گیا ہے۔ متعلقہ پارٹی نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے اور میر ے علم کے مطابق اس میں دلائل کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا گیا تھا۔ شام تک کو کوئی حکم امتناعی نہیں آیا تھا۔ میں اس پر مزید معلومات حاصل کر رہا ہوں۔‘‘