پارکنسن: جب تک تشخیص ہوتی ہے، بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے
11 اپریل 2017پارکنسن میں مبتلا انسانوں کے ہاتھ کانپتے ہیں، اُن کے لیے چائے کی پیالی تک تھامنا یا چمچ اپنے منہ تک لے جانا بھی مشکل بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے۔ صرف جرمنی ہی میں ڈھائی سے لے کر تین لاکھ تک شہری اس مرض کا شکار ہیں۔ اس طرح جرمنی میں الزائمر کے بعد پارکنسن اعصابی خلل کی دوسری بڑی بیماری ہے۔
تاحال کوئی علاج نہیں
پارکنسن میں مبتلا انسانوں کے دماغ میں اعصابی خلیے مر جاتے ہیں۔ ایسا دماغ کے گہرائی میں واقع اُس حصے میں ہوتا ہے، جہاں سے انسانی جسم کی بہت سی حرکات کنٹرول ہوتی ہیں اور جو بتدریج حرام مغز کے ساتھ جا ملتا ہے۔ اس مرض کی ابتدائی علامات اس کے پوری طرح سے پھیل جانے سے دس یا بیس سال پہلے سے ہی ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ زیادہ تر لوگ ساٹھ کے پیٹے میں ہوتے ہیں، جب اُن کے ہاں اس مرض کی تشخیص ہوتی ہے لیکن پہلے بھی اس کا پتہ چل جانے کی صورت میں ابھی اس کا کوئی علاج در یافت نہیں ہوا ہے۔
کپکپاہٹ کا تدارک
ابھی بازار میں ایسی کوئی ادویات دستیاب نہیں ہیں، جو کسی شخص کے پارکنسن میں مبتلا ہونے کو روک سکتی ہوں۔ دُنیا بھر میں اس مرض پر مختلف لوگ اور ادارے تحقیق کر رہے ہیں۔ اس تحقیق میں زیادہ تر توجہ اعصابی خلیوں کو مرنے سے بچانے کے طریقے تلاش کرنے پر دی جا رہی ہے۔ اسی طرح اس مرض کی ابتدائی علامات ظاہر ہونے سے بھی پہلے اس مرض کا پتہ چلانے کے طریقے ڈھونڈے جا رہے ہیں۔ اس کی علامات میں جسم کی حرکات میں واضح خلل، کپکپاہٹ، پٹھوں کا اکڑ جانا یا آگے چل کر کھڑا ہونے یا چلنے میں دقت وغیرہ شامل ہیں۔
پیغام رساں مادوں کا کردار
ایسے مریضوں میں، جن کی جسمانی حرکات خلل کا شکار ہوتی ہیں، پیغام رساں مادے ڈوپامین کی مقدار بہت ہی کم ہوتی ہے۔ ایسے میں مختلف اعصابی گروپوں مثلاً سبسٹینشیا نِگرا کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ صحت مند لوگوں میں سیاہ نظر آنے والے اس دماغی حصے کے خلیے ڈوپامین پیدا کرتے ہیں۔ جب اِن خلیات کا تقریباً ساٹھ تا ستّر فیصد حصہ متاثر ہو جاتا ہے تو پارکنسن کی علامات نظر آنے لگتی ہیں۔
علاج کی جانب کسی بڑی کامیابی کا انتظار
یونیورسٹی کالج لندن کی ایک تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اس مرض کی کئی علامات تشخیص سے کئی سال پہلے ہی ظاہر ہونا شروع جاتی ہیں۔ کئی مریضوں کا اس تناظر میں جائزہ لیا گیا کہ تشخیص سے پانچ سال پہلے اُن کے ہاں کیا کیا علامات موجود تھیں۔ چلنے پھرنے میں دقت کے ساتھ ساتھ ایسے مریضوں میں ڈپریشن، تھکاوٹ یا خوف کی علامات بھی دیکھی گئیں۔
دُور دُور تک علاج کا امکان نظر نہیں آ رہا
لندن کے ڈاکٹر جیمز پارکنسن نے دو سو سال پہلے ہی اس مرض کے بارے میں تفصیلات بیان کی تھیں۔ اپنے مضمون کو اُنہوں نے ’اَین ایسے آن دی شیکنگ پالسی‘ یعنی ’مفلوج کرنے والی کپکپاہٹ کے بارے میں ایک مضمون‘ کا نام دیا تھا۔ دو سو سال گزر گئے لیکن یہ مرض بدستور لا علاج ہے۔
اس مرض کے مریضوں کا علاج زیادہ تر ایسی ادویات سے کیا جاتا ہے، جن کا مقصد دماغ میں ڈوپامین کی مقدار کو متوازن رکھنا ہوتا ہے۔ آپریشن سے بھی اس مرض کو دُور نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح کے آپریشنز میں جلد کے نیچے ایک ننھا سا جنریٹر رکھ دیا جاتا ہے، جس کا مقصد دماغ کے کچھ مخصوص حصوں کو تحریک دینا ہوتا ہے۔ صرف اتنا فرق پڑتا ہے کہ پھر ایسے مریضوں کو ذرا کم مقدار میں ادویات کھانا پڑتی ہیں ورنہ یہ مرض لا علاج ہی ہے اور دُنیا بھر کے سائنسدان اس کے علاج کے طریقے تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔