پاسپورٹ چھپانے والوں کی ملک بدری سے قبل ’طویل حراست ناجائز‘
17 فروری 2017جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی جنوبی جرمن شہرکارلسروہے سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اس وفاقی عدالت نے ایک ایسے مراکشی تارک وطن کے بارے میں ایک کیس کا فیصلہ سنایا، جسے پہلے ہی جرمنی سے ملک بدر کیا جا چکا ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ جرمن ادارے پناہ کے متلاشی کسی غیر ملکی کو ملک بدر کرنے سے پہلے محض اس وجہ سے چھ ماہ سے زائد عرصے تک حراست میں نہیں رکھ سکتے کہ اس نے اپنا پاسپورٹ چھپا دیا تھا یا جرمنی آنے سے پہلے یا بعد میں دانستہ طور پر تلف کر دیا تھا۔
’جو جتنی جلدی واپس جائے گا، مراعات بھی اتنی زیادہ ملیں گی‘
جرمنی میں پناہ کی تمام درخواستوں پر فیصلے چند ماہ کے اندر
کارلسروہے کی اس فیڈرل کورٹ کے سامنے ایک ایسے مراکشی تارک وطن کا کیس تھا جسے پہلے ہی جرمنی سے ملک بدر کیا جا چکا ہے۔ یہ مراکشی شہری سن 2015 کے اواخر میں غیر قانونی طور پر جرمنی آیا تھا۔ جرمنی آنے سے پہلے اس نے غیر قانونی طور پر آسٹریا جانے کی ناکام کوشش بھی کی تھی۔
جرمنی آنے کے فوراﹰ بعد دسمبر 2015ء کے شروع میں اسے جرمن حکام نے حراست میں لے لیا تھا۔ پھر جون 2016ء میں جرمنی کی ایک ذیلی عدالت نے اس غیر ملکی کے ملک بدر کیے جانے سے پہلے مزید چھ ماہ اور دو ہفتوں تک اسے حراست میں رکھنے کی اجازت دے دی تھی۔
تب حراست میں لیے جانے کی وجہ یہ تھی کہ اس تارک وطن نے جرمنی آنے سے پہلے اپنا پاسپورٹ جان بوجھ کر سمندر میں پھینک دیا تھا۔ علاوہ ازیں جرمنی میں پناہ کے متلاشی اس مراکشی باشندے نے جرمن حکام کو اپنی قومیت اور خاندان کے بارے میں کوئی معلومات فراہم کیں اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی شناختی دستاویز یا اس کی کاپی فراہم کی تھی۔
اب اس تارک وطن کے مقدمے میں فیصلہ سناتے ہوئے کارلسروہے کی وفاقی عدالت کے ایک جج نےکہا کہ متعلقہ غیر ملکی پناہ گزین کو اتنی مدت تک حراست میں رکھ کر اسے اس کے حقوق سے محروم کیا گیا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ کسی غیر ملکی کو جرمنی سے ملک بدر کیے جانے سے پہلے چھ ماہ سے لے کر اٹھارہ ماہ تک صرف اسی صورت میں مسلسل لیکن بار بار کی توسیع کے بعد حراست میں رکھا جا سکتا ہے جب وہ اپنی ملک بدری کے خلاف مزاحمت کرے۔
متعلقہ جج نے اس ’مزاحمت‘ کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ غیر ملکی واضح انداز میں ملک بدری کے خلاف ایسے رویہ اختیار کرے جو اس کی جرمنی سے جبری واپسی کی راہ میں رکاوٹوں یا تاخیر کا باعث بنے۔ عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ کسی تارک وطن کی جرمنی آمد سے قبل کی سرگرمیوں کو بنیاد بنا کر اسے ملک بدری سے قبل حراست میں نہیں رکھا جا سکتا۔
اس مراکشی تارک وطن کے بارے میں ذیلی عدالتوں کے فیصلوں کے حوالے سے وفاقی عدالت کے جج کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان عدالتوں نے اس بات کو مد نظر نہیں رکھا کہ جرمن حکام نے اس شخص سے تعاون کرنے کے لیے کہا ہی نہیں تھا، جس سے اگر وہ انکار کرتا تو اسے ملک بدری سے پہلے زیر حراست رکھا جا سکتا تھا۔
دو برسوں میں ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے یورپ میں پناہ کی درخواستیں دیں