پانی سے متعلق تنازعہ، پاک بھارت مذاکرات شروع ہونے کا امکان
14 دسمبر 2016بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان وِکاس سوروپ نے آج بروز بدھ مورخہ 14 دسمبر ایک بیان میں کہا ہے کہ اُن کا ملک اپنی بین الاقوامی ذمّہ داریوں سے بخوبی آگاہ ہے اور مزید مشاورت کے لیے بھی تیار ہے۔ دوسری جانب ایک پاکستانی اہلکار نے خبر رساں ادارے اے پی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ پانی کی تقسیم کے مسئلے پر دونوں حریف ممالک کے درمیان براہِ راست مذاکرات جلد بحال ہو جائیں گے۔
تاہم حکام کو خدشات ہیں کہ چونکہ عالمی بینک کی ثالثی کے عمل میں ایک غیر جانبدار ثالث اور ثالثی کی عدالت دونوں شامل ہوں گے اور اگر ایسے میں کسی بھی ملک کی توقعات کے برعکس فیصلہ سن 1960 میں ہوئے سندھ طاس معاہدے کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
خیال رہے کہ بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور پاکستان کے صدر ایوب خان نے کراچی میں 19 ستمبر سن 1960 کو عالمی بینک کی ثالثی میں سندھ طاس معاہدہ پر دستخط کیے تھے۔ جس کی رو سے چھ دریاؤں کو دونوں ملکوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔
کشمیر سے بہنے والے تین مغربی دریاؤں سندھ، جہلم اور چناب پر پاکستان کو خصوصی اختیار اور پنجاب سے بہنے والے تین مشرقی دریاؤں بیاس، راوی اور ستلج پر بھارت کو مکمل اختیار دیا گیا تھا۔ بھارت اس معاہدے کی رو سے مغربی دریاؤں کا 3.6 ملین ایکڑ فٹ پانی استعمال کرسکتا ہے لیکن اس نے آج تک اس کے لیے کوئی اسٹوریج سہولیات نہیں بنائی ہے۔
رواں برس ستمبر میں بھی بھارت نے کہا تھا کہ وہ سندھ طاس معاہدے کا دوبارہ جائزہ لے گا، جس کے جواب میں پاکستان نے بین الاقوامی عدالت برائے انصاف اور ورلڈ بینک سے معاملے میں مداخلت کرنے کا کہا تھا۔ حال ہی میں پاکستان نے اقوام متحدہ میں بھارت کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ’پانی کو ہتھیار‘ کے طور پر استعمال کرنے سے باز رہے۔
پاکستان بڑی حد تک دریائے سندھ کے پانی پر انحصار کرتا ہے۔ اس کے تقریباً65 فیصد حصے کو اسی دریا سے پانی ملتا ہے۔ اگر بھارت اپنے یہاں سے پاکستان کی طرف جانے والی دریاؤں کا پانی روک دیتا ہے تو پاکستان میں پانی کا زبردست بحران پیدا ہوجائے گا۔ تاہم آبی ماہرین کہتے ہیں کہ اس سے خود بھارت کو بھی نقصان ہوگا اور جموں و کشمیر نیز بھارتی پنجاب کے علاقے سیلاب کی زد میں آجائیں گے۔