پانی کی کمیابی کے باعث دنیا بھر میں شدید مقابلہ بازی
27 اگست 2022پانی کی کمیابی ایک تاریخی حقیقت ہے، جو اکثر مقابلہ بازی کی وجہ رہی ہے۔ ماضی کے میسوپوٹیمیا اور آج کے عراق سے 4500 سال پرانا ایک پتھر نمائش کے لیے پیرس کے لوور میوزیم میں رکھا ہوا ہے۔ اس پتھر پر لگاش اور اُمّا کے بادشاہوں کے مابین لڑی گئی جنگ کے مناظر کنندہ ہیں۔ یہ جنگ جزوی طور پر پانی ہی کی وجہ سے لڑی گئی تھی۔
اس کے بعد سے پانی کی قدر کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ زمین پر اس وقت تقریباﹰ آٹھ ارب انسان آباد ہیں اور ان سب کو پینے کے لیے پانی کی ضرورت ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ زرعی شعبہ اور صنعتیں بھی بہت زیادہ پانی استعمال کرتی ہیں۔ مگر ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلیاں، غیر متناسب بارشیں اور بار بار کی خشک سالی اور اس کی طوالت بھی آبی وسائل کی دستیابی کو متاثر کر رہی ہیں۔
یورپ کو گزشتہ پانچ سو سال کی بد ترین خشک سالی کا سامنا
افریقی ملک ایتھوپیا جب دریائےنیل کے بالائی علاقوں پر ڈیم بناتا ہے، تو سوڈان اور مصر کے لوگوں کو زندگی کا خوف لاحق ہو جاتا ہے۔ ترکی میں الیسو ڈیم دریائےدجلہ کا پانی روکتا ہے، جس کا مطلب عراق میں پانی کی کمی ہے۔ دریائے فرات کئی مقامات پر بند ہے۔ 2018 ء میں یورپی کمیشن کے ایما پر کی گئی ایک تحقیق میں آٹھ ایسے دریاؤں کی نشاندہی کی گئی تھی، جن میں تیزی سے کم ہوتے ہوئے پانی کے استعمال کی وجہ سے مزید تنازعات کا خطرہ ہے۔ ان میں نیل، فرات، دجلہ، گنگا، برہم پتر، سندھ اور کولوراڈو نامی دریا شامل ہیں۔
جرمنی میں خشک سالی
جرمنی یورپی کمیشن کی مذکورہ بالا رپورٹ میں شامل نہیں تھا۔ جرمنی کو اب تک پانی سے مالا مال ملک سمجھا جاتا رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں ایلپس کے پہاڑی سلسلے اور بحیرہ شمالی کے درمیان خطے میں بھی موسم گرما کو مزید گرم اور خشک تر بنا رہی ہیں۔ اس کے نتیجے میں اس خطے کے مناظر مرجھانے لگے ہیں، دلدلی زمینیں خشک ہو رہی ہیں اور جنگلات جلنے لگے ہیں۔ ان حالات میں دریا بحری آمد و رفت کی شریانوں کے طور پر ناکام ہو جاتے ہیں کیونکہ ان میں جہاز رانی کے لیے کافی پانی نہیں ہوتا۔ یوں جیسے جیسے زیر زمین پانی کی سطح کم ہوتی جا رہی ہے، مستقبل کے حوالے سے تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔
جرمنی کے مغربی علاقے میں دریائے ہنسرُک کے کنارے واقع 500 کی آبادی والے لائزل نامی گاؤں ہی کی مثال لے لیں۔ وہاں مقامی باشندوں میں منرل واٹر کا کاروبار کرنے والی دو کمپنیوں کےخلاف ناراضگی پائی جاتی ہے۔ یہ کمپنیاں اپنی پیداوار بڑھانے کے لیے ایک قدرتی پارک کے عین وسط میں پانی کے نئے کنویں کھودنا چاہتی ہیں۔ گاؤں کے رہائشیوں کو خدشہ ہے کہ یوں ان کے اپنے کنویں خشک ہو جائیں گے۔ آنی امور کے ماہر ہولگر شنڈلر پوچھتے ہیں کہ کیا نیشنل پارک سے پانی نکالنے کے عمل میں توسیع جائز بھی ہے؟ اس معاملے میں کم از کم ٹیسٹ ڈرلنگ تو قانونی معلوم ہوتی ہے۔ 2015 ء میں اس نیشنل پارک کے قیام سے کچھ عرصہ قبل وہاں ڈرلنگ کی ایک درخواست کی منظوری دی گئی تھی۔
شنڈلر کے مطابق زیر زمین آبی ذخائر میں کمی ہو رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں اس ماہر حیاتیات کو خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں جرمنی میں بھی علاقائی سطح پر آبی تنازعات کھڑے ہو سکتے ہیں۔
پانی کے لیے کئی دہائیاں پرانی رسہ کشی
جرمن عدالتوں میں بھی پانی کے تنازعات سے متعلق مقدمات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر شمالی جرمنی کے شہر لیونےبرگ میں عدالت ایک ایسے مقدمے کی سماعت کر رہی ہے، جو جرمنی کے دوسرے سب سے بڑے شہر ہیمبرگ کو پانی کی فراہمی سے متعلق ہے۔ پانی فراہم کرنے والا ایک مقامی ادارہ 'ہامبرگ واسر‘ 40 سال سے لیونےبرگ سے پانی نکال کر ہیمبرگ شہر کو فراہم کر رہا ہے۔ اب یہ سپلائی کمپنی اس پانی کے حجم میں نمایاں توسیع چاہتی ہے۔ لیونےبرگ کی بلدیاتی انتظامیہ نے ماحولیاتی خدشات کے پیش نظر 2019 ء میں وہاں سے پانی نکالنے کی ایک حد مقرر کر دی تھی، جس کے بعد 'ہامبرگ واسر‘ یا 'ہیمبرگ واٹر‘ نے اس فیصلے کے خلاف ایک عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا تھا۔
پیاسی صنعت
دریں اثنا صنعتی پیداوار کے لیے بھی خاص طور پر پانی کی کھپت بہت زیادہ رہتی ہے۔ الیکٹرک کار ساز امریکی کمپنی ٹیسلا کا وفاقی صوبے برانڈن برگ میں گروئن ہائیڈے کے مقام پر قائم پلانٹ بھی سرخیوں میں رہا کیونکہ یہ ایک ایسے خطے کے وسط میں تعمیر کیا گیا ہے، جو پہلے ہی پانی کی قلت کا شکار تھا۔ یہ نئی فیکٹری ایک ایسے علاقے میں قائم کی گئی، جو پینے کے پانی کی دستیابی کے لحاظ سے ایک محفوظ علاقہ ہے۔ اس کار فیکٹری کو اپنی ضروریات کے لیے اندازہﹰ سالانہ 14 لاکھ کیوبک میٹر پانی درکار ہے۔ ابتدائی طور پر اس کمپنی نے اپنی ضروریات کا تخمینہ 30 لاکھ کیوبک میٹر سے زائد لگایا تھا۔ تاہم بعد میں اسے اپنے ان اندازوں سے پیچھے ہٹنا پڑا تھا۔ اس دوران خطے میں پانی اتنا کم ہو چکا ہے کہ پانی فراہم کرنے والے ادارے نے اسے ذخیرہ کرنا شروع کر دیا۔ اس علاقے میں پانی کی فی کس روزانہ اوسط کھپت 175 لٹر ہے۔ لیکن اگر کوئی نیا رہائشی اس علاقے میں منتقل ہوتا ہے تو اسے پانی کا نیا کنکشن دیا جاتا ہے، اس کے تحت اسے روزانہ صرف 105 لٹر فی کس پانی استعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ توانائی کمپنیاں خاص طور پر بڑی مقدار میں پانی استعمال کرتی ہیں۔
پانی کے حقوق اور آگہی کی کمی
جرمنی کے ہیلم ہولٹ مرکز برائے ماحولیاتی تحقیق کے آبی وسائل اور ماحولیات کے شعبے کے سربراہ ڈیٹر بورشارٹ کا کہنا ہے کہ یہ اچھی بات ہے کہ جرمنی میں عوام کے آبی حقوق بھی ہوتے ہیں جن کے محافظ پبلک سروس شعبے کے اہلکار ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''پانی وراثت میں ملنے والی شے ہے، جس کا انتظام و ترسیل بھی منصفانہ ہونا چاہییں۔‘‘
بورشارٹ کے مطابق ریگولیٹری حکام کو یہ جانچنا ہو گا کہ متعلقہ خطے میں کتنا پانی ہے اور کتنا پانی استعمال کیا جانا ہے اور انہیں اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہیے کہ یہ کام پائیدار طریقے سے کیا جائے۔ تاہم فیصلہ سازی کی بنیاد اکثر کمزور ہوتی ہے۔ تحفظ ماحول کی وفاقی جرمن تنظیم بی یو این ڈی کی آبی امور کی ماہر مارٹینا راشکے نے جرمنی کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے 13 اضلاع اور شہروں کے درمیان پانی کی دستیابی سے متعلق ایک سروے کیا تھا۔
ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے راشکے کا کہنا تھا کہ اس سروے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ذمہ دار حکام کو اکثر یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کتنا زیر زمین پانی استعمال کر سکتے ہیں۔ پانی کی بڑھتی ہوئی قلت کے پیش نظر وفاقی جرمن وزارت ماحولیات ایک قومی آبی حکمت عملی پر بھی کام کر رہی ہے۔
اس وزارت کی جانب سے2021 ء میں پیش کردہ ایک مسودے میں 2030 ء اور 2050 ء کے درمیان نافذ کیے جانے والے پانی کی فراہمی کے تصورات کا ذکر کیا گیا تھا۔ آبی معاملات کے ماہر بورشارٹ کا کہنا ہے کہ پانی کا انتظام ایک مسلسل کام ہوتا ہے۔ ان کے بقول موجودہ موسمیاتی تبدیلیوں کے مکمل اثرات 2050 ء کے بعد تک واضح نہیں ہو سکیں گے، ''اس لیے ہمیں آئندہ برسوں کے لیے تیاری ابھی سے کرنا ہو گی۔‘‘
ش ر / م م (ماتھیاس فان ہائن)
یہ مضمون بنیادی طور پر جرمن زبان میں لکھا گیا تھا۔