پانی کے مسئلہ پر پاک بھارت اتفاق رائے
3 جون 2010جنوبی ا یشیا کے دو نیوکلیائی طاقت والے ملکوں بھارت اور پاکستان کے درمیان پانی کے مسئلے پراتفاق رائے کو دونوں ملکوں کے درمیان امن کوششوں کو دوبارہ ٹریک پر لانے کے سلسلے میں ایک اہم پیش رفت سمجھا جارہا ہے۔ کیونکہ پانی کے معاملے پر بھارت اور پاکستان کے درمیان گذشتہ چند مہینوں سے ایک دوسرے کے خلاف الزامات اور جوابی الزامات کا جو سلسلہ چل رہا تھا اس سے ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ پانی کا معاملہ دونوں ملکوں کے درمیان مسئلہ کشمیر کی طرح سنگین نوعیت اختیار کرسکتا ہے۔ پاکستان کی عسکریت پسند تنظیموں نے بھی پانی کے مسئلے میں لفظی جنگ کو ہوا دینا شروع کردیا تھا۔
چار دنوں تک چلنے والی میٹنگ کے بعد پاکستان انڈس کمیشن کے سربراہ سید جماعت علی شاہ نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے بتایاکہ ” جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ پاکستان میں تمام دریا کشمیر یا راوی یا ستلج سے جاتے ہیں اس لئے ہم نے آپس میں یہ بات طے کی ہے کہ بھارت ہمیں ان دریاؤں میں پانی کی صورت حال کے بارے میں پیشگی اطلاعات فراہم کرے گا تاکہ ہم سیلاب کی صورت میں ممکنہ خطرات کو ٹال سکیں اوروہاں رہنے والے لوگوں کو بروقت محفوظ مقامات تک پہنچا سکیں۔“ انہوں نے مزید کہا کہ” ہمارا اس بات پر بھی اتفاق ہوگیا ہے کہ رواں سال میں ہم معائنے کے لئے دو دورے کریں گے اور کم از کم دو میٹنگیں کریں گے “۔
جماعت علی شاہ نے بتایا کہ جون اور جولائی میں میٹنگ ہوگی جب کہ اگست کے اوائل میں پن بجلی گھر کے سائٹ کا دورہ کریں گے۔ خیال رہے کہ بھارتی وزیر داخلہ پی چدمبرم اور خارجہ سکریٹری نروپما راؤ اس ماہ کی 26 تاریخ کو اسلام آباد کا دورہ کرنے والے ہیں جب کہ 15جولائی کو دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی میٹنگ ہونے والی ہے اس لئے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ان سیاسی میٹنگوں کو کسی حد تک کامیاب بنانے نیز ان کے لئے سازگار ماحول تیار کرنے کے خاطر دونوں ملکوں نے پانی کے تنازع کی شدت کو کم کرنے کا فیصلہ کیا۔
جب ہم نے اس حوالے سے سید جماعت علی شاہ کی رائے معلوم کرنی چاہی تو انہوں نے کہا ”جموں و کشمیر میں بھارت اڑی ٹو اور چوٹک نام کے جو دو پن بجلی گھر تعمیر کرنا چاہتا ہے ہمیں ان پر اعتراضات تھے لیکن بھارت نے ہمیں جو اعداد و شمار دئے ہیں اور جو تجزیاتی رپورٹ پیش کی ہے ان کا جائزہ لینے کے بعد ہم دونوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ بھارت ان پرجیکٹوں پران کے موجودہ ڈیزائن کے ساتھ کام کو آگے بڑھا سکتا ہے۔
انڈس کمیشن کی یہ میٹنگ پانی کے تنازعات کو حل کرنے کے سلسلے میں دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والی سالانہ میٹنگ کا حصہ تھی۔ اس میں پاکستانی کے دس رکنی وفد کی قیادت جماعت علی شاہ نے اور بھارتی وفد کی قیادت جی ارنگ ناتھن نے کی۔
واضح رہے کہ پاکستان بھارت پر پانی چوری کرنے کا الزام عائد کرتا رہا ہے جب کہ بھارت نے ہمیشہ اس کی تردید کی ہے۔ جب ہم نے جماعت علی شاہ سے پوچھا کہ آخران کے الزامات میں کتنی صداقت ہے تو انہوں نے کہا ”ہم نے آفیشیلی طور پر کبھی یہ نہیں کہا کہ پانی چوری کا کوئی مسئلہ ہے۔ لیکن اگر ہم معاہدے کے نفاذ کے ریکارڈ کو دیکھیں تو وہ ریکارڈ بھی تو اپنی جگہ پر درست نہیں ہے۔ اگر2008 میں پانی کی سطح میں کمی ہوئی ہے تو یہ بلا شبہ معاہدے کی خلاف ورزی تھی۔ اگر بھارت نے وولربیراج کی 1985 میں اورچوٹک پن بجلی گھر کی 2006 اور2007میں اگرہمیں بروقت اطلاع نہیں دی تھی تو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ معاہدہ کی خلاف ورزی ہے۔ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ معاہدے کو اس کی اصل روح کے ساتھ نافذ کیا جائے۔“
پاکستان نے کہا کہ ان دونوں پن بجلی گھروں کی تعمیر اور آئندہ پروجیکٹوں کے دورا ن بگلہیا ر کی غلطیاں نہ دہرائی جائیں کیونکہ 2008 میں بگلیہار پن بجلی گھر کی تعمیر کی وجہ سے پاکستان میں پانی کی قلت ہوگئی تھی ۔ بھارت نے بہر حال یقین دہانی کرائی ہے کہ آئندہ کسی بھی ڈیم کی تعمیر کے دوران اس کی فلنگ کا خیال رکھا جائے گا۔
رپورٹ: افتخار گیلانی
ادارت: عدنان اسحاق