پاپائے روم کا برطانوی سامعین سے غیر معمولی خطاب
24 دسمبر 2010دنیا بھر میں مسیحی عقیدے سے تعلق رکھنے والے انسان آج جمعہ کو کرسمس کے تہوار سے متعلق ابتدائی تقریبات بڑی عقیدت و احترام سے منا رہے ہیں۔
جمعہ چوبیس دسمبر کو صبح سویرے ہی سے حضرت عیسیٰ کی جائے پیدائش بیت اللحم میں دنیا کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے مسیحیوں کی ایک بڑی تعداد جمع ہونا شروع ہو گئی۔ اس مرتبہ پہلی بار کئی عرب ممالک سے بھی بڑی تعداد میں مسیحی باشندے کرسمس کی تعطیلات کے لئے غرب اردن پہنچے ہیں۔
اس بار کیتھولک مسیحی باشندوں کے روحانی پیشوا پوپ بینیڈکٹ شانزدہم نے پہلی بارایک غیر روایتی طریقے سے اُن ممالک میں سے ایک ملک کے عوام سے خطاب کیا، جہاں کے دورے انہوں نے رواں سال کے دوران کئے تھے۔ پاپائے روم نے برطانوی نشریاتی ادارے کے ذریعے کرسمس کے موقع پر اپنے ایک ریڈیو پیغام میں برطانوی عوام سے مخاطب ہوئے کہا کہ حضرت عیسیٰ کی پیدائش کی اہمیت کو ہمیشہ یاد رکھا جانا چاہئے۔
کلیسائے روم کے سربراہ نے کہا، ’بیت اللحم میں پیدا ہونے والا بچہ اپنے ساتھ آزادی لایا تھا لیکن اس کا ذریعہ سیاسی یا عسکری نہیں تھا‘۔ پوپ نے مزید کہا، ’ہمیں تاریخ کا وہ وقت یاد آتا ہے جب بنی اسرائیل ایسے مسیحا کے انتظار میں تھی، جسے وہ لوگ بڑا رہنما سمجھتے تھے اور جو انہیں آزادی دلائے گا‘۔ بینیڈکٹ شانزدہم کے بقول، ’لیکن وہ بچہ بیت اللحم میں پیدا ہوا۔ وہ اس وقت ساری دنیا کے انسانوں کا مسیحا ثابت ہوا جب اس نے صلیب پر موت کو گلے لگا کر خود موت ہی کو تباہ کر دیا‘۔
پوپ نے کرسمس کے اپنے مرکزی پیغام سے پہلے ایک بیان میں عراق اور فلسطین کے مسیحیوں کے ساتھ دلی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں یقین دلایا کہ وہ موجودہ کٹھن وقت میں اُن کے ساتھ ہیں۔ پوپ نے مشرق وسطیٰ کے جمود کے شکار امن مذاکرات پر بھی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’میں خدا کی ذات سے امید رکھتا ہوں کہ اس تنازعہ کا کوئی حل نکلے گا۔‘‘
اُدھر برطانیہ کی نیشنل سیکولر سوسائٹی نے پوپ کے ریڈیو نشریاتی خطاب پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ’ کیتھولک چرچ اہلکاروں کی طرف سے زیادتیوں کا شکار ہونے والے ان ہزاروں افراد کے منہ پر طمانچہ ہے، جو کلیسا سے انصاف کا تقاضہ کر رہے ہیں‘۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: مقبول ملک