1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک افغان بارڈر طورخم پر فائرنگ: تیرہ زخمی، کرفیو نافذ

فرید اللہ خان، پشاور13 جون 2016

پاکستان کے قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں واقع پاک افغان سرحد طورخم پر دونوں ممالک کی مابین کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ بارہ گھنٹے سے جاری فائرنگ کے نتیجے میں تین سکیورٹی اہلکار اور دو بچوں سمیت تیرہ شہری زخمی ہوئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1J5nT
Pakistan Afghanistan Grenze Torkhum Peshawar
تصویر: DW/D.Baber

ان زخمیوں کو پاکستان کے قبائلی علاقے لنڈی کوتل کے ایک ہسپتال پہنچا دیا گیا ہے، جہاں انہیں طبی امداد دی جاری ہے۔ دوسری جانب طورخم کی پولیٹیکل انتظامیہ نے سرحد کے قریب علاقہ خالی کرتے ہوئے مقامی افراد کو محفو ظ مقام پر پہنچا دیا ہے جبکہ سکیورٹی کی وجہ سے آس پاس کے علاقوں میں کرفیو نافذ کرتے ہوئے عوام کو گھروں تک محدود رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

دونوں ممالک کے مابین کشید گی میں اضافے کی وجہ سے افغان ٹرانزٹ اور ایکسپورٹ امپورٹ کے ٹرکوں کو بھی واپس پشاور بھیج دیا گیا۔ فوج کے ترجمان ادارے کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق پاکستانی حکام طورخم کے مقام پر اپنی طرف غیر قانونی نقل و حمل اور عسکریت پسندوں کی آمدو رفت پر نظر رکھنے کے لیے گیٹ بنا رہے تھے، جب افغاں سکیورٹی فورسز نے بلا اشتعال پاکستانی حدود میں مارٹر گولے پھینکنا شروع کر دیے، جس کے نتیجے میں پاکستانی سکیورٹی فورسز نے جوابی کارروائی کی۔

Pakistan Afghanistan Grenze Torkhum Peshawar
پاکستانی حکام طورخم سرحد پر اپنی ہی حدود میں گیٹ تعمیر کررہا ہے، جس کی تعمیر پر افغانستان کے بعض حلقے خوش نہیں ہیںتصویر: DW/D.Baber

فوج کے ترجمان کے مطابق، ’’طورخم دونوں ممالک کے مابین اہم ترین گزرگاہ ہے، جسے اکثر عسکریت پسند بھی پاکستان میں داخلے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے حکومت نے طورخم کے راستے بغیر دستاویزات کے داخلے پر پابندی عائد کی ہے لیکن افغان حکام کو اس فیصلے سے مایوسی ہوئی ہے۔‘‘

پاکستان اور افغانستان کے مابین سرحد چوبیس سو کلومیٹر طویل ہے جبکہ طورخم کا راستہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے قبائلی امور کے ماہر صحافی اور تجزیہ کار ظاہر شاہ آفرید ی کا کہنا تھا، ’’پیر کی صبح فائرنگ کا سلسلہ بند ہوا لیکن شام کے وقت یہ سلسلہ پھر سے شروع ہو گیا۔ دونوں جانب سے آمد ورفت مکمل طور پر بند ہے اور زیادہ تر لوگ دشوار گزار پہاڑی راستے استعمال کر رہے ہیں۔ قریبی علاقوں کے دو سو سے زیادہ خاندان لنڈی کوتل منتقل ہوگئے ہیں۔‘‘

Pakistan Afghanistan Grenze Torkhum Peshawar
دونوں ممالک کے مابین کشید گی میں اضافے کی وجہ سے افغان ٹرانزٹ اور ایکسپورٹ امپورٹ کے ٹرکوں کو بھی واپس پشاور بھیج دیا گیاتصویر: DW/D.Baber

پاکستانی حکام طورخم سرحد پر اپنی ہی حدود میں گیٹ تعمیر کررہا ہے، جس کی تعمیر پر افغانستان کے بعض حلقے خوش نہیں ہیں۔ اسی طرح سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے سرحد پر خار دار تار لگانے پر بھی افغان حکام کو اعتراض ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں موجودہ کشیدگی کے حوالے سے جب ڈوئچے ویلے نے عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی سکریٹری جنرل اور پارلیمانی لیڈر سردار حسین بابک سے بات کی تو ان کا کہنا تھا، ’’یہ دونوں ممالک کے لئے انتہائی تشویش ناک بات ہے۔ اس لیے کہ یہ صرف دو ممالک کی بات نہیں۔ پاکستان میں لاکھوں افغان رہائش پذیر ہیں تو افغانستان میں بھی لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی موجود ہیں۔ اے این پی کا یہی موقف ہے کہ عالمی قوتیں دونوں ممالک کے مابین ضامن بن کر بھائی چارے کا معاہدہ کروائیں۔ پاکستان اور افغانستان کے خراب تعلقات کا فائدہ دہشت گردوں کو ہوگا۔ اس لیے دونوں ممالک قوم کی خاطر تحمل و برد باری کا مظاہر ہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کو برداشت کریں کیونکہ دونوں ممالک دہشت گردی کے ستائے ہوئے ہیں اور ان کے عوام امن کے خواہاں ہیں۔‘‘

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کچھ عرصے سے کشیدہ چلے آ رہے ہیں، انہیں بہتر بنانے کے لیے پاکستان نے ایک اور اہم سرحدی علاقے انگور اڈہ چیک پوسٹ افغان حکام کے حوالے کی تاکہ سکیورٹی کے نظام کو موثر بنایا جاسکے تاہم افغانستان کے بھارت اور ایران کے قریب آنے کے بعد ان تعلقات میں سرد مہری کے بعد اب کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے اور بات فائرنگ کے تبادلے تک پہنچ چکی ہے۔ یہ کشیدگی ایک ایسے وقت میں شدت اختیار کرچکی ہے، جب پاکستان میں قیام پذیر تین ملین قانونی اور غیر قانونی افغان مہاجرین کی واپسی کی مدت میں تین ہفتے باقی رہ گئے ہیں۔