پاک افغان تجارتی حجم میں کمی، دونوں طرف کے تاجر پریشان
26 اپریل 2018دونوں ممالک باہمی تجارت کو ساڑھے ارب ڈالر تک پہنچانے کے دعووں کو پورا کرنے میں ناکام رہے۔ مشکلات کی وجہ سے جہاں پاکستانی تاجر اپنا سامان دیگر ممالک لے جانے پر مجبور ہیں وہاں افغان تاجر بھی دیگر ممالک میں اپنے لیے منڈیاں تلاش کررہے ہیں۔ دونوں ممالک کے مابین تجارت میں کمی کی وجہ سے قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا میں ٹرانسپورٹ،کلیرنس ایجنٹس اور مزدوری کرنے والے افراد کو بے روزگاری کا سامنا ہے۔
ایران کی پاکستان کو چا بہار منصوبے میں شمولیت کی دعوت
ماہرین نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا ہے کہ اگر حکومتی پالیساں اسی طرح برقرار رہیں تو دونوں ممالک کے مابین تجارت بالکل ختم ہو جائے گی۔ جب اس سلسلے میں ڈوئچے ویلے نے سرحد چیمبر آف کامرس کے صدر زاہد اللہ شنواری سے بات کی تو ان کا کہنا تھا، ’’دونوں ممالک کے حکمران نہیں چاہتے کہ باہمی تجارت کو فروغ ملے۔ پاکستان نے پاک افغان سرحد طورخم سے گزرنے والی گاڑیوں پر طرح طرح کے ٹیکس لگائے ہیں۔ جواب میں افغان حکومت نے بھی ٹیکسوں میں اضافہ کیا ہے۔ دونوں ممالک کے مابین تجارت میں بہتری لانے کے حوالے سے بات چیت میں ڈیڈ لاک ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو سالانہ اربوں ڈالر کا نقصان پہنچ رہا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے مابین یہ تجارت اب چارسو ملین ڈالر تک محدود ہوگئی ہے۔
حکومتوں کی پالیسیوں کی وجہ سے اب تاجر متبادل مارکیٹ تلاش کر رہے ہیں جب کہ دونوں حکومتوں کے ایسے اقدامات کی وجہ سے اسمگلنگ میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔
زاہد اللہ شنواری کا مزید کہنا تھا، ’’افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تجارتی پالیسیوں کا پچانوے فیصد نقصان قبائلی اور پختونخوا کے عوام کو ہورہا ہے۔ طورخم سرحد پر کسٹم، وزارت تجارت اور دیگر سرکاری اہلکاروں نے کئی مشکلات پیدا کی ہیں جس نے دونوں ممالک کے مابین تجارت کو تقریباﹰ ختم کردیا ہے۔‘‘
پاکستان اور افغانستان کے مابین تجارت کے لیے پانچ مختلف راستے ہیں۔ تاہم خیبر ایجنسی میں طورخم کے راستے سب سے زیادہ تجارت ہوا کرتی تھی۔ تاہم گزشتہ ایک عرصے سے دونوں ممالک کے مابین کشیدگی،ٹیکسوں میں اضافے اور سہولیات کے فقدان کی وجہ سے اس راستے سے تجارت میں مسلسل کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
ڈی ڈبلیو نے اس حوالے سے طورخم میں ٹرانسپورٹرز ایسوسی ایشن سے وابستہ حاجی عظیم سے بات تو ان کا کہنا تھا، ’’سسٹم کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کی وجہ سے ایک گاڑی کی کلیرنس میں آدھے گھنٹے کی بجائے پانچ گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ ٹرمینل نہیں ہیں اور عملے کے لیے سہولیات بھی نہیں ہیں۔ نئے سسٹم کی وجہ سے روزگار بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی گاڑی سے افغانستان میں پانچ ہزار جب کہ افغانی گاڑی میں سامان لے جانے والے افغانیوں سے پانچ سو روپے ٹیکس لیا جاتا ہے۔ حاجی عظیم نے یہ بھی بتایا کہ کہ ڈرائی فروٹ لے جانے والی ایک گاڑی سے دو لاکھ کی جگہ اب بارہ لاکھ روپے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ تاہم انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ اس نظام میں کچھ نرمی اختیار کی گئی ہے، ’’جگہ جگہ چیک پوسٹس ختم کرکے ایک مقام پر چیکنگ کی جاتی ہے جس سے وقت کی بچت ہوتی ہے۔ لیکن اگر حکومت تجارت کو بڑھانا چاہے تو پرانا سسٹم واپس لانا ہوگا یا اس نظام میں مزید نرمی لانا ہوگی۔‘‘
کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین تجارت میں اضافہ ممکن ہے لیکن اس کے لیے پاکستان کو اپنے موجودہ قوانین میں نرمی لانی ہوگی۔ اگر ایسا نہ ہوا تو طویل سرحد پر غیر قانونی کاروبار(اسمگلنگ) روکنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
طورخم سمیت پاک افغان شاہراہ لنڈی کوتل اور دیگر علاقوں میں بھی بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ لنڈی کوتل میں موجود انتظامیہ سے رابطہ کرنے پر ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پہلے نئے سسٹم اور اسے چلانے والوں کے مسائل حل کیے جائیں تو تبھی وہ دوسروں کو سہولیات فراہم کر پائیں گے۔