پاک امریکہ کشیدگی، سینیٹر کیری کا دورہء پاکستان
15 فروری 2011جان کیری امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے لیے 7.5 بلین ڈالر مالیت کا امریکی امدادی پیکیج منظور کروانے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ پاکستان القاعدہ کے خلاف امریکی سربراہی میں لڑی جانے والی جنگ میں واشنگٹن کا انتہائی اہم حلیف ہے۔ ایٹمی ہتھیار رکھنے والے جنوبی ایشیا کی اس ملک میں جان کیری کو احترام کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔
اپنے دورہء پاکستان کے دوران سینیٹر کیری پاکستانی حکومتی عہدیداروں کو یقین دلائیں گے کہ اسلام آباد کو طویل المدتی بنیادوں پر واشنگٹن کا تعاون حاصل رہے گا۔ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کی ایک خاتون ترجمان نے منگل کو بتایا کہ سینیٹر کیری آج رات اس لیے پاکستان پہنچ رہے ہیں کہ مقامی رہنماؤں کے ساتھ پاک امریکہ تعلقات کے بارے میں بات چیت کر سکیں۔
پاکستان کے واشنگٹن کے ساتھ دو طرفہ روابط اس وقت سے بحرانی صورت حال کا شکار ہیں، جب سے لاہور میں پولیس نے ریمنڈ ڈیوس کا گرفتار کیا ہے۔ لاہور میں امریکی قونصل خانے کا کہنا ہے کہ ڈیوس اس کے علمے کے ارکان میں سے ایک ہے۔ ڈیوس نے جنوری کی 27 تاریخ کو لاہور کے ایک بہت مصروف علاقے میں دو پاکستانی شہریوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
ریمنڈ ڈیوس یہ اعتراف کر چکا ہے کہ اس نے ان دونوں پاکستانی شہریوں پر فائرنگ کی تھی۔ تاہم اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے ایسا اپنے ذاتی دفاع میں کیا تھا۔ اس وقت ڈیوس لاہور کی ایک جیل میں ہے کیونکہ ایک مقامی عدالت نے اسے چودہ روزہ ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دے رکھا ہے۔
واشنگٹن حکومت کا کہنا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس پاکستان میں متعین ایک امریکی سفارت کار ہے اور اسے بین الاقوامی قانون کے تحت رہا کر کے فوری طور پر امریکہ بھجوایا جانا چاہیے۔ ڈیوس کی رہائی کے لیے اب تک کی تمام امریکی کوششیں ناکام رہی ہیں۔ امریکی ارکان کانگریس یہ دھمکی بھی دے چکے ہیں کہ اگر ڈیوس کو رہا نہ کیا گیا، تو پاکستان کو امدادی رقوم کی ادائیگی روک دی جائے گی۔
اسی کشیدگی کے پس منظر میں امریکہ نے وہ اعلیٰ سطحی سہ فریقی مذاکرات بھی اگلے فیصلے تک ملتوی کر دیے ہیں، جو اسی مہینے واشنگٹن میں ہونا تھے۔ ان مذاکرات میں پاکستان، افغانستان اور امریکہ کو حصہ لینا تھا۔
ایک امریکی اہلکار نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر خبر ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ جان کیری کے دورہء پاکستان کا مقصد اس تنازعے کے حل کی کوشش کرنا ہے۔ ساتھ ہی وہ پاکستان کی اس مخلوط حکومت پر دباؤ بھی کم کرنا چاہیں گے، جو پہلے ہی بہت کمزور ہے۔
پاکستانی حکومت ان مطالبات کے باعث داخلی طور پر شدید دباؤ میں ہے کہ ڈیوس کے خلاف ملکی عدالت میں دہرے قتل کا مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔ جنوری کے آخر میں قتل کے اس واقعے کے بعد سے پاکستان میں امریکہ مخالف عوامی جذبات میں واضح طور پر اضافہ ہوا ہے۔
پاکستانی پولیس کا کہنا ہے کہ اب تک کی چھان بین کے مطابق ریمنڈ ڈیوس نے دو پاکستانیوں کو اپنے ذاتی دفاع میں گولی نہیں ماری تھی بلکہ یہ قتل کا دانستہ واقعہ تھا۔ ڈیوس کے موجودہ ریمانڈ کی مدت 25فروری کو پوری ہو گی۔ پاکستان میں پچھلے چند ہفتوں کے دوران کئی مرتبہ ایسے احتجاجی مظاہرے بھی دیکھنے میں آ چکے ہیں، جن میں مظاہرین نے ریمنڈ ڈیوس کے لیے سزائے موت کا مطالبہ کیا۔
اسی ہفتہ جمعرات کو لاہور ہائی کورٹ ایک بار پھر متوقع طور پر یہ سماعت کرے گی کہ آیا ریمنڈ ڈیوس اپنی سفارتی حیثیت کی وجہ سے اپنے خلاف کسی قانونی کارروائی سے مستثنیٰ ہے۔ اس بارے میں وضاحت کے لیے لاہور ہائی کورٹ نے پاکستانی وزارت خارجہ کو پندرہ دن کی مہلت دے رکھی ہے۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: امتیاز احمد