پاک بھارت فلمی تعاون میں اضافہ
19 مئی 2016بھارت کی فلم انڈسٹری جسے بالی وُڈ بھی کہا جاتا ہے، یہاں مرکزی کردارادا کرنا اور اس انڈسٹری کی بڑی فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دینا اور پلے بیک سنگنگ کرنا نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت کے فنکاروں کے لیے بھی کسی خواب سے کم نہیں ہوتا۔ لیکن یہ خواب اب پاکستان کے بہت سے گلوکاروں اور اداکاروں کے لیے حقیقت بن گیا ہے۔ فواد خان، ماہرہ خان، علی ظفر ہوں یا پھر عاطف اسلم یہ نام آج بالی وُڈ میں چھائے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے فواد خان کی حالیہ بالی وُڈ فلم ’کپور اینڈ سنز‘ نے بھارت میں شاندار کامیابی حاصل کی۔ پاکستان کی ماہرہ خان بھارت کے سب سے بڑے اداکار شاہ رخ خان کے مقابل بطور ہیروئین فلم ’رئیس‘ میں کام کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ عاطف اسلم اور علی ظفر بھی بھارت کی فلم انڈسٹری میں اپنا نام بنا چکے ہیں۔
بھارت کے نامور گیت نگار راج شیکھر نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’گزشتہ برس بھارت کا سب سے مشہور ہونے والا گانا پاکستان کے عاطف اسلم نے گایا تھا۔ بھارت کے عوام پاکستانی گلوکاروں اور اداکاروں کو بے انتہا پسند کرتے ہیں۔‘‘ راج شیکھر مزید کہتے ہیں کہ بھارت کی فلمیں اور پاکستان کے ڈرامے دونوں ملکوں کے عوام کو بہت قریب لے آتے ہیں اور یہ رشتہ دونوں ممالک کی حکومتوں کے مابین تناؤ کے باوجود بہت مضبوط رشتہ ہے۔
دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ پاکستانی ٹیلی وژن انڈسٹری سے بہت سے اداکار مُلک میں اپنا لوہا منوا کر اب بالی وُڈ کی بڑی انڈسٹری کا رخ کر رہے ہیں۔ پاکستان کے اکثر ڈراموں میں مرکزی کردار ادا کرنے والے زاہد احمد نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’پاکستان ٹی وی سے وابستہ ناموں نے بالی وُڈ میں جا کر ثابت کر دیا ہے کہ ہمارے ملک میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے۔‘‘ زاہد کہتے ہیں کہ پاکستان میں سینیئر ہدایتکاروں اور اداکاروں کی ایک تنظیم کے قیام کے لیے کام کیا جا رہا ہے جس سے پاکستان کی ٹی وی اور بھارت کی فلم انڈسٹری کے مابین مزید تعاون بڑھے گا۔ زاہد اس بات کے حامی ہیں کہ فنکاروں کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اور انہیں ہر پلیٹ فارم پر کام کرنے کا موقع فراہم کیا جانا چاہیے۔
پاکستان کے نامور ہدایت کار نبیل قریشی کی فلم ’نامعلوم افراد’ نے بے پناہ کامیابی حاصل کی تھی۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ میں اپنی نئی فلم ’ایکٹر ان لا ‘‘ پر آج کل کام کر رہا ہوں، اس فلم میں بھارت کے اداکار اوم پوری نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے، یہ بہت مثبت بات ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے ٹیلنٹ سے فائدہ اٹھائیں۔‘‘ تاہم نبیل قریشی یہ بھی کہتے ہیں کہ اقصادی طور پر پاکستان کی فلم انڈ سٹری کو صرف تب ہی فائدہ ہو سکتا ہے جب پاکستان کی فلمیں بھارت میں دکھائی جائیں گی۔
کچھ ایسے افراد بھی ہیں جن کی نظر میں پاکستان کو بھارت کی بڑی فلم انڈسٹری کی چکا چوند سے بہت زیادہ متاثر نہیں ہوجانا چاہیے۔ ایسے ناموں میں سید نور کا نام بھی شامل ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’قانوناﹰ بھارتی فلمیں پاکستان میں نہیں دکھائی جا سکتیں لیکن چند چینلز غیر قانونی طور پر بھارت کی فلمیں دکھا رہے ہیں۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس سے پاکستانی معاشرے کی اقدار کو نقصان پہنچ رہا ہے۔‘‘ سید نور کی رائے میں کسی بھی پاکستانی اداکار کا بھارت جا کر کام کرنا غلط نہیں تاہم انہیں پاکستان کی عزت اور نام کا خیال رکھنا چاہیے۔
اس حوالے سے ماہرہ خان نے ڈان نیوز چینل کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا، ’’بھارت جا کر کام کرنا آسان نہیں تھا، مجھ پر بہت دباؤ تھا کہ میں کچھ ایسا نہ کروں جس سے پاکستان کے لوگوں کی دل آزاری ہو۔‘‘
پاکستان اور بھارت دونوں ہی ممالک میں انتہا پسند آوازیں ہیں جو نہیں چاہتیں کہ دونوں ملک کوئی بھی ادبی یا ثقافتی رشتہ قائم کریں۔ کئی مرتبہ پاکستانی اداکاروں، اور ادیبوں کو بھارت میں انتہا پسند تنظیموں کی جانب سے دھمکیاں مل چکی ہیں اور حال ہی میں پاکستان آنے والے بھارتی ہدایت کار کبیر خان کو کراچی ائیرپورٹ پر ہراساں کیا گیا تھا۔
اس تناؤ کے باوجود دونوں ملکوں کے عوام کی ایک دوسرے کے ڈراموں، فلموں اور گلوکاروں سے محبت کم نہیں ہو پائی۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج پہلے سے کہیں بڑھ کو دونوں ممالک کے اداکار، گلوکار اور فنکار ایک دوسرے کے ملکوں میں زیادہ کام کر رہے ہیں۔