پاک چین جوہری تعاون پر مغربی طاقتیں ’فِکرمند‘
28 جون 2012خبر رساں ادارے روئٹرز نے سفارتی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ واشنگٹن میں ہونے والے ایک اجلاس میں چین سے پاکستان کے ساتھ جوہری تعاون کے حوالے سے مزید معلومات فراہم کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ امریکی حکام کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بھارت سمیت کئی دوسرے ملکوں نے پاکستان کی طرف سے ’ایٹمی ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ‘ کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ اس نیوز ایجنسی کے مطابق 46 ممالک کے نیوکلئیر سپلائرز گروپ (این ایس جی) کے دوران چین نے اس حوالے سے کسی بھی قسم کا دباؤ قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔
ایک امریکی اہلکار کا کہنا تھا کہ پاکستانی صوبے پنجاب میں چشمہ نیوکلئیر پاور کمپلیکس میں دو نئے ایمٹی ری ایکٹرز کی تعمیر کے حوالے سے چین نے اپنی پوزیشن تبدیل نہیں کی ہے۔ اسی طرح ایک اور اہلکار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ بیجنگ حکومت نے گزشتہ برس بھی پاکستان کے حوالے سے اپنی پوزیشن برقرار رکھی تھی۔
واشنگٹن حکومت اور کئی دیگر ملکوں کا چین سے مطالبہ تھا کہ دو نئے ری ایکٹرز کی تعمیر سے پہلے اسے NSG گروپ سے اجازت لینا ہو گی۔ اس مؤقف کے برعکس چین کا اصرار ہے کہ دو ایٹمی ری ایکٹرز کی تعمیر اس دو طرفہ معاہدے کا حصہ ہے، جو اس نے سن 2004 میں NSG گروپ میں شمولیت سے پہلے کیا تھا۔
امریکی حکام کا روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان اور چین کے مابین نئے دو یونٹوں کی تعمیر کی کا معاہدہ سن 2008 میں بھارت کے ساتھ امریکی جوہری معاہدے کے بعد طے پایا ہے۔ ان اہلکاروں کے مطابق اس وقت پاکستان کی طرف سے بھی ایسے ہی ایک معاہدہ کرنے کی بات کی گئی تھی، جسے امریکا نے مسترد کر دیا تھا۔ اس وقت اسلام آباد حکام کا کہنا تھا کہ وہ توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے چین کے ساتھ ایسا ہی کوئی معاہدہ کر سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق امریکا کے ساتھ مسلسل بگڑتے ہوئے تعلقات کی وجہ سے پاکستان ایشیا کے پاور ہاؤس چین کی چھتری تلے آنا چاہتا ہے جبکہ چین نے بھی پاکستان کو خوش آمدید کہا ہے۔
اس دو روزہ اجلاس میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ بھارت کو 46 ممالک کے نیوکلئیر سپلائرز گروپ (این ایس جی) کا حصہ بنایا جائے۔ اس گروپ کا رکن بننے کے حوالے سے امریکا نے بھی سن 2010 میں بھارت کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔
(ia/ab(Reuters