1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: آبادی کے منہ زور سیلاب کو روکنا ہو گا، ماہرین

تنویر شہزاد، لاہور11 جولائی 2015

دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح آج پاکستان میں بھی آبادی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ لیکن ملکی آبادی میں تیزی سے ہونے والے اضافے کی بدولت مسائل کا ادراک نہ ہونے کے برابر ہے۔

https://p.dw.com/p/1Fx9L
تصویر: picture-alliance/dpa

لاہور کی پنجاب یونیورسٹی میں سوشل سائنسز فیکلٹی کے ڈین اور انسٹیٹیوٹ آف سوشل اینڈ کلچرل اسٹڈیز کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر ذکریا ذاکر کے مطابق یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ پاکستان میں طویل عرصے سے مردم شماری نہ ہو نے کی وجہ سے ملکی آبادی کے درست اور حتمی اعدادوشمار میسر نہیں ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’ہمیں پتا ہی نہیں ہے کہ یہاں کتنے لوگ رہتے ہیں، کہاں کہاں رہتے ہیں، لوگوں کی شہروں کی طرف نقل مکانی کس رفتار سے جاری ہے۔ سارے منصوبے اور ترقیاتی پروگرام محض اندازوں پر بنائے جا رہے ہیں۔‘‘

تاہم آبادی سے متعلق ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کی موجودہ آبادی 19 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ پاکستان اس وقت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے۔ اگر آبادی اسی شرح سے بڑھتی رہی تو 2050ء میں پاکستان 30 کروڑ کی آبادی کے ساتھ دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن جائے گا۔ پاکستان میں آبادی میں اضافے کی شرح ایک اعشاریہ نو فیصد بتائی جاتی ہے جبکہ ایران میں یہ شرح ایک اعشاریہ دو فیصد، بنگلہ دیش میں ایک اعشاریہ تین فیصد، ملائیشیا میں ایک اعشاریہ سات فیصد ،انڈونیشیا میں ایک اعشایہ دو فیصد، بھارت میں ایک اعشاریہ پانچ فی صد اور سری لنکا میں ایک فیصد ہے۔

پاکستان کی وزیر برائے بہبود آبادی پنجاب بیگم ذکیہ شاہنواز کا کہنا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک ملک کی آبادی میں چھ گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ صوبہ سندھ میں تو یہ اضافہ سات گنا تک ہوا ہے۔ پاکستانی آبادی کا پانچواں حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے اور ہر 20 منٹ میں ایک عورت زچگی کی پیچیدگیوں کی وجہ سے اپنی جان کھو رہی ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان میں آبادی میں تیز رفتار اضافے کی وجوہات میں زیادہ بچے پیدا کرنے کا رجحان (بعض علاقوں میں بچوں کو کمائی کا ذریعہ بھی سمجھا جاتا ہے)، کم عمری کی شادیاں، مانع حمل سہولیات کی عدم دستیابی اور لڑکے پیدا کرنے کی خواہش وغیرہ بھی شامل ہیں۔

پاپولیشن کونسل پاکستان کے ڈائریکٹر پروگرامز ڈاکٹر علی محمد میر بتاتے ہیں کہ حالیہ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں 15 سے 50 سال تک کی عمر کی ہر پانچ عورتوں میں سے ایک عورت بچوں کی پیدائش میں وقفہ چاہتی ہے لیکن اس کی رسائی فیملی پلاننگ کی سہولیات تک نہیں ہے۔ ان کے مطابق، ’’اس مسئلے کے حل کے لیے حکومتی کمٹمنٹ کی ضرورت ہے۔ ہمیں فیملی پلاننگ کی سہولتوں کو صحت کی سہولتوں کا حصہ بنا کر عام آدمی کے لیے دستیاب کرنا ہوگا۔ ہم ضبط ولادت کی بات نہیں کرتے بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ لوگوں کو یہ حق ملنا چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی تعداد اور وقت کا تعین خود کرسکیں تاکہ وہ اپنے وسائل کے مطابق اتنے بچے پیدا کریں جنہیں وہ صحت، تعلیم اور خوراک کی مناسب سہولتیں باسانی فراہم کر سکیں تاکہ ایک بہتر معاشرے کی تشکیل ہو سکے۔‘‘

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں ایک عورت کے ہاں اوسطاﹰ پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد تین اعشاریہ چھ جبکہ دنیا میں اوسطاﹰ ایک عورت کے ہاں بچوں کی پیدائش دو اعشاریہ چار ہے۔

آبادی کے مسئلے کے حوالے سے ڈاکٹر زکریا ذاکر کا مؤقف بہت منفرد ہے ان کی رائے ہے کہ آبادی میں اضافے کو سماجی اور اقتصادی ترقی سے زیادہ بہتر انداز میں کنٹرول کیا جا سکتا ہے، ’’جس کے پاس پیسے ہوں، زندگی کا کوئی مقصد ہو، اس کے پاس کرنے کو بہت سے کام ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک اس کی ایک عمدہ مثال ہیں۔ ان کے بقول اس مسئلے کے حل کے لیے عورتوں کو با اختیار بنانا، ان کو تعلیم دینا، اور بچیوں کی کم عمری کی شادیوں سے اجتناب کرنا بہت ضروری ہے۔‘‘

پاکستان میں 44 فیصد بچے خوراک کی کمی کا شکار ہیں
پاکستان میں 44 فیصد بچے خوراک کی کمی کا شکار ہیںتصویر: AP

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف سوشل اینڈ کلچرل اسٹیڈیز اور انسٹی ٹیوٹ آف کمیونیکیشن اسٹیڈیز نے آبادی کے حوالے سے ماسٹر اور گریجویشن لیول پر کورسز متعارف کروا دیے ہیں۔

پاکستان کے ممتاز دانشور اور سابق وزیر اطلاعات جاوید جبار نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ پاکستان میں بچوں کی تعداد نہیں بلکہ ان کی استعداد بڑھانے کی ضرورت ہے۔

پاپولیشن کونسل پاکستان کے ڈائریکٹر پروگرامز ڈاکٹرعلی میر کے مطابق جس رفتار سے آبادی بڑھ رہی ہے اس رفتار سے پاکستان میں لوگوں کے لیے سہولیات میں اضافہ نہیں ہو رہا ہے: ’’اس وقت بھی ملک میں 44 فیصد بچے خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ آبادی میں اضافے کے اثرات ماحول پر بھی پڑ رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں پانی کا بحران مزید شدید ہو سکتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کی 65 فیصد آبادی 25 سال سے کم عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ان کو اگر صحت، تعلیم اور روزگار کی سہولتیں مل جائیں تو یہ نوجوان ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں اور اگر یہ نوجوان جاہل اور بےروزگار رہے توپھر غربت کے مارے یہ نوجوان کیا کچھ کر گزریں گے اس کا تصور کرنا بھی بہت اذیت ناک ہے۔‘‘

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس سال آبادی کے عالمی دن کا موضوع ’’ہنگامی حالات میں غیر محفوظ آبادی‘‘ ہے، جس کا مقصد خواتین اور بچوں کو ہنگامی حالات سے محفوظ رکھنا ہے۔ پاکستان کو پچھلے کچھ سالوں سے شدید قدرتی آفات کا سامنا رہا ہے۔ آبادی کے عالمی دن کا آغاز 1989ء میں یو این ڈی پی کی طرف سے ہوا تھا اسے 11 جولائی کو منانے کی وجہ 1987ء میں 11 جولائی ہی کا دن ہے جب دنیا کی آبادی پانچ ارب سے تجاوز کر گئی تھی۔