پاکستان اب تک فضائی آلودگی کی لپیٹ میں کیوں؟
19 نومبر 2023بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی جنوبی ایشیا میں لاکھوں افراد کی زندگی کو متاثر کر رہی ہے۔ اس کی وجہ سے اسکولوں کو بند کرنا پڑ رہا ہے، کھیلوں کی تقاریب اور سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں اور صحت کے مسائل سے بچاؤ کے لیے حکومتیں شہریوں کو زیادہ سے زیادہ گھروں تک محدود رہنے کی تاکید کر رہی ہیں۔
متعدد جائزوں کے مطابق اس وقت، دنیا کے فضائی آلودگی سے سب سے زیادہ متاثرہ چار ممالک جنوبی ایشیا میں واقع ہیں۔ ان ہی میں پاکستان بھی شامل ہے۔
فضائی آلودگی کی وجوہات؟
ماحولیات سے وابستہ وکیل احمد رافع عالم کا اس بارے میں کہنا ہے کہ فضائی آلودگی کی وجوہات کا تعین کرنے کے لیے ایک ایسے جائزے کی ضرورت ہے جس سے پتہ چلے کہ آلودگی کہاں سے آ رہی ہے۔ان کا کہنا تھا، ’’میری معلومات کے مطابق پورے پاکستان کے حوالے سے اب تک ایسی کوئی اسٹڈی نہیں کی گئی۔‘‘
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہپنجابکے حوالے سے ایسی اسٹڈیز ہوئی ہیں جن کے مطابق فضائی آلودگی کی بڑی وجوہات میں گاڑیاں، جن میں غیر میعاری پیٹرول استعمال ہوتا ہے، توانائی کی پیداوار کے لیے تیل اور کوئلے جیسے ایندھن کا استعمال جو قابل تجدید نہیں اور صنعت کا شعبہ شامل ہیں۔
رافع عالم نے ان اسٹدیز کا ذکر کرتے ہوئے مزید کہا کہ پنجاب میں تقریباً 45 فیصد فضائی آلودگی کا ذریعہ ٹرانسپورٹ ہے، 20 فیصد آلودگی کی وجہ توانائی کی پیداوار کے لیے استعمال ہونے والا ایندھن ہے، تقریباً یہ ہی تناسب صنعت کے باعث پیدا ہونے والی آلودگی کا ہے اور تقریباً 10 فیصد آلودگی کی وجہ فصلیں جلانا ہے۔
ان جائزوں کے تناظر میں انہوں نے یہ محتاط اندازہ بھی لگایا کی پاکستان بھر میں بھی یہ ہی فضائی آلودگی کی بڑی وجوہات ہو سکتی ہیں۔
ماحولیاتی ماہر فاطمہ یامین بھی ٹرانسپورٹ اور صنعت کو پاکستان میں آلودگی کی بڑی وجوہات قرار دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے علاوہ زراعت اور کھانا پکانے کے لیے استعمال ہونے والاایندھن بھی آلودگی کا باعث بنتا ہے، لیکن ٹرانسپورٹ اور صنعت کی حد تک نہیں۔
سموگ اور اس سے پیدا ہونے والی آلودگی
فصلیں یا بھوسا جلانے کا عمل فضائی آلودگی کے ان اسباب میں شامل ہے جو بالخصوص صرف جنوبی ایشیا تک محدود ہیں اور سموگ کا باعث بنتا ہے۔ اس حوالے سے رافع عالم کا کہنا تھا کہ پاکستان میں فصلیں تو گرمیوں میں بھی جلائی جاتی ہیں لیکن سردیوں میں اس کے باعث پیدا ہونے والی آلودگی زیادہ نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ فصل جلانا دراصل نئی فصل کے لیے زمین تیار کرنے کا ایک طریقہ ہے جو دہائیوں سے اس خطے کے کسان عمل میں لا رہے ہیں۔ ان کے بقول کسانوں کو زیادہ ذرائع میسر نہیں ہوتے اور یہ طریقہ ان کے لیے سستا پڑتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گرمیوں میں گرم ہوا ماحول میں اوپر کی طرف اٹھتی ہے، چناچہ آلودگی بھی سطح زمین سے دور ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ گرمیوں میں بارش بھی فضائی آلودگی کا اثر زائل کرتی ہے، تاہم ان کا کہنا تھا،’’لیکن سردیوں میں ایسا نہیں ہوتا اور آلودگی زمین کے نسبتاً قریب رہتی ہے، اسی لیے ہمیں زیادہ نظر آتی ہے۔‘‘
سموگ کا یہ مسئلہ پاکستان کے پڑوسی ملک بھارت میں بھی سردیوں میں شدت اختیار کر لیتا ہے۔ بھارتی دارالحکومتنئی دہلیمیں اس سال 38 فیصد آلودگی قریب واقع پنجاب اور ہریانہ کی ریاستوں میں چاول کے بھوسے کو جلانے کے باعث پیدا ہوئی۔
رافع عالم کہتے ہیں کہ فضائی آلودگی میں کمی لانے کے لیے جو اقدامات ضروری ہیں ان میں سموگ کا باعث بننے والے فصل جلانے کے عمل پر پابندی شامل ہے۔وہ کہتے ہیں ’اس عمل کا ایک متبادل ہیپی سیڈر مشینوں کا استعمال ہے، لیکن یہ مہنگی ہوتی ہیں۔ حکومت کو ان پر سبسڈی دے کر ان کو کسانوں کے لیے قابل استعمال بنانا چاہیے۔‘
سموگ کے حوالے سے فاطمہ یامین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے صوبے پنجاب میں ٹرانسپورٹ سیکٹر 83 فیصد سموگ کا باعث بنتا ہے اور اس امر میں عوام کی پبلک ٹرانسپورٹ تک رسائی بڑھانے اور ایندھن کے استعمال میں کمی کی پالیسی پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
فضائی آلودگی کم کرنے میں ناکامی کی وجہ
فضائی آلودگی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے کئی جنوبی ایشیائی ممالک نے ہوا کے معیار کو بہتر بنانے کے منصوبوں پر کام شروع کیا ہے، فضا میں آلودگی کا تناسب جانچنے کے لیے مانیٹرز نصب کیے ہیں اور ایسے ایندھن کا استعمال شروع کیا ہے جس سے ضر رساں گیسوں کااخراج کم ہوتا ہے۔ لیکن ان اقدامات کے اب تک کوئی خاطر خواہ نتائج نظر نہیں آئے ہیں۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ اس ناکامی کی ایک وجہ خطے میں ممالک کی درمیان آلودگی پر قابو پانے کی کوششوں میں ہم آہنگی کی کمی ہے۔کئی مطالعاتی جائزوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ دھول کے ذرات محظ اس ملک تک ہی محدود نہیں رہتے جہاں ان کے ذرائعے موجود ہوں۔ وہ سرحدیں پار کر کہ سینکڑوں کلو میٹر سفر کرتے ہیں اور دیگر ممالک میں بھی آلودگی کا باعث بنتے ہیں۔
یہاں بنگلا دیش کی مثال موزوں ہے، جہاں 30 فیصد آلودگی کا باعث پڑوسی ملک بھارت میں موجود عناصر ہیں۔اسی طرح فاطمہ یامین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں آلودگی کی ایک بڑی وجہ پروسی ممالک مثلا بھارت اور چین کی "ریزیڈوئل پولوشن" ہے۔
اس حوالے سے فاطمہ یامین کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں کمی بھی کر دے اور صنعت اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں اصلاحات بھی متعارف کر دے، تب بھی پڑوی ممالک کی "ریزیڈوئل پولوشن" پاکستان کے کئی علاقوں میں سموگ کی طرح کے اثرات کا باعث بنتی رہے گی۔
انہوں نے زور دیا کہ خطے میں بھارت، چین اور روس جیسے ممالک کو فوسل فیولز کے استعمال میں کمی کرنی ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایشیا میں ان ممالک میں فوسل فیولز کے استعمال سے ضرر رساں گیسوں کا اخراج زیادہ ہوتا ہے اور ایسے میں پاکستان یا کوئی اور ملک اکیلے فضائی آلودگی کے مسئلے سے نہیں نمٹ سکتا۔
فاطمہ یامین نے کہا، "فوسل فیولز کے استعمال سے خارج ہونے والی ضررساں گیسیں اور ان سے پیدا ہونے الی آلودگی سرحدیں نہیں دیکھتی اور اب وقت آگیا ہے کہ آلودگی میں کمی کے لیے خطے کی سطح پر کوشش کی جائے۔"
آخر حل کیا ہے؟
اگر جنوبی ایشیائی ممالک کو خطے میں فضائی آلودگی کے مسئلے پر قابو پانا ہے تو انہیں اس حوالے سے اپنی کوششوں کو ہم آہنگ بنانا ہوگا اور آلودگی کی مانیٹرنگ اور اس میں کمی کے لیے بنائی گئی پالیسیوں پر آپس میں تعاون کو بڑھانا ہوگا۔ ساتھ ہی ان وسیع کوششوں کو جہاں ضرورت ہو وہاں مقامی حالات کے موافق بنانے پر بھی توجہ دینا ہوگی۔
اس کے علاوہ اس حوالے سے اب تک نظر انداز کیے جانے والے شعبے، مثلاً زراعت اور ویسٹ مینیجمنٹ، پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
کیا الیکٹرک بسیں پاکستان میں فضائی آلودگی کم کر سکتی ہیں؟
فاطمہ یامین کا ماننا ہے کہ بالخصوص پاکستان میں فضائی آلودگی میں کمی کے لیے وہاں کے ٹرانسپورٹ اور صنعت کے شعبوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں شہریوں کی پبلک ٹرانسپورٹ تک رسائی کو بڑھانا ہوگا اور حکومت اور امرا کی جانب سے گاڑیوں کی درآمد، خرید اور استعمال پر پابندیاں عائد کرنی ہوں گی۔
م ا/ ک م (ڈی ڈبلیو اور روئٹرز)