پاکستان اور بھارت کے وزرائے تجارت نئی دہلی میں
27 ستمبر 2011خبر رساں ادارے روئٹرز کے تجزیے کے مطابق وزراء کی سطح کی یہ ملاقات پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں پیدا شدہ تناؤ سے توجہ ہٹانے میں بھی معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ اسی طرح بھارت کے لیے یہ ملاقات اُس سمت میں ایک چھوٹا قدم ہے، جسے بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ خطے میں مستقل امن کا نام دیتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بہتری کو جنوبی ایشیا میں استحکام کی ضمانت سمجھا جاتا ہے اور بہت سے مبصرین کی رائے میں کشمیر کے مسئلے کا حل اس کی کنجی ہے۔
پاکستانی وزیر تجارت مخدوم امین فہیم اور اُن کے بھارتی ہم منصب آنند شرما کی ملاقات سے قبل دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ گزشتہ روز نیویارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں ایک غیر رسمی ملاقات بھی کرچکے ہیں۔ امین فہیم ایک بڑے تجارتی وفد کے ہمراہ پیر کو چھ روزہ دورے پر ممبئی پہنچے۔ باضابطہ مذاکرات بدھ 27 ستمبر کے لیے شیڈیول کیے گئے ہیں، جو رواں سال اپریل میں اسلام آباد منعقدہ سیکریٹری سطح کی ملاقات کا تسلسل ہیں۔
دونوں ممالک کے مابین تجارت میں گزشتہ عرصے کے دوران اضافہ دیکھا گیا ہے۔ 2010ء میں براہ ر است دو طرفہ تجارت کا تخمینہ دو اعشاریہ سات ارب ڈالر تھا، جو 10 ارب ڈالر کی بالواسطہ تجارت کے مقابلے میں پھر بھی کم ہے۔ اس وقت دونوں ممالک کے درمیان بڑے پیمانے کی تجارت تیسرے فریق مثال کے طور پر دبئی کے ذریعے کی جارہی ہے، جو اخراجات میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔
خارجہ امور کے ایک بھارتی ماہر اور بھارت کے معتبر روزنامے دی ہندو کے ایڈیٹر سدھارت وراداراجن کا کہنا ہے، ‘‘کامیاب تجارتی مذاکرات کا سیاسی معاملات یا کشمیر کے معاملے سے کوئی تعلق نہیں مگر یہ چیزیں وسیع تر عمل کا حصہ بنتی ہیں۔‘‘ سدھارت کے بقول ان کے خیال میں دونوں ممالک کو اب تعلقات میں بہتری کے لیے کوششیں کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے مابین اعتماد کے فقدان کے سبب دو طرفہ تجارت میں فروغ کے وسیع امکانات سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا ہے۔ دونوں ممالک کی مجموعی آبادی قریب ایک عشاریہ چار ارب کے برابر بنتی ہے اور یوں اگر محض تجارتی ویزوں کے اجراء کو سہل اور راہداریاں کھولنے کا سلسلہ شروع کیا جائے تو بڑی تبدیلی دیکھنے کو ملے گی۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: عصمت جبیں