پاکستان اور روس کے مابین مذاکرات جاری
24 جنوری 2011تاہم دفتر خارجہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ نائب روسی وزیر خارجہ سیرگئی ریبابکوف نے ان مذاکرات میں روسی وفد کی جبکہ وزارت خارجہ کے ایک ایڈیشنل سیکریٹری نے پاکستانی وفد کی قیادت کی۔ ذرائع کے مطابق مذاکرات کے دوران خطے میں جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ اور افغانستان کی صورتحال کے علاوہ پاکستان اور روس کے درمیان اقتصادی اور دفاعی تعلقات کے حوالے سے بات چیت ہونا تھی۔
روس میں پاکستان کے ایک سابق سفیر اور سابقہ سیکریٹری خارجہ تنویر احمد خان موجودہ حالات میں ماسکو اور اسلام آباد کے مابین قریبی دوستانہ تعلقات کو خطے کی خوشحالی کے لیے ناگزیر قرار دیتے ہیں۔ ڈوئچے ویلے کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے تنویر احمد خان نے کہا کہ پاکستان کے 1947ء میں اپنے قیام سے لے کر ہی روس کے ساتھ زیادہ اچھے تعلقات نہیں رہے۔
پھر سرد جنگ کے زمانے میں ان تعلقات میں مزید سرد مہری آ گئی۔ روس سمجھتا ہے کہ امریکہ پاکستان کے بغیر اسے کبھی بھی افغانستان میں شکست نہیں دے سکتا تھا۔ تاہم تنویر احمد خان کا کہنا ہے کہ اب زمینی حالات مکمل طور پر بدل چکے ہیں۔
’’ان کے خیال میں پاکستان تمام رکاوٹوں کے باوجود افغانستان میں ایک کلیدی کردار ادا کرتا رہے گا۔ دوسرا یہ کہ بھارت کے ساتھ ان کا جو تاریخی رشتہ ہے، وہ قائم تو ہے لیکن اب بھارت کا رشتہ امریکہ کے ساتھ بھی ہو چکا ہے۔ اب تک یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ماسکو جنوبی ایشیا کو انڈیا کی نظر سے دیکھتا تھا لیکن اب صورتحال مختلف ہو گئی ہے۔ اب چاہے نیپال ہو، بنگلہ دیش یا کوئی اور، ان کو وہ الگ دیکھنا چاہتے ہیں اور ان کے ساتھ تعلقات کے خواہاں ہیں۔‘‘
دفاعی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے روس نے سن 1970 کی دہائی میں پاکستان کو کراچی میں جو سٹیل مل لگا کر دی تھی، وہ آج بھی ایک اہم قومی اثاثہ ہے اور یہ کہ پاکستان روس کی مدد سے اس صنعت کو مزید ترقی دے سکتا ہے۔
دفاعی تجزیہ نگار میجر جنرل (ر) جمشید ایاز کا کہنا ہے کہ روس اور چین کے درمیان انتہائی قریبی تعلقات ہیں اور چین پاکستان کا بھی دیرینہ دوست ہے۔ اگر یہ تینوں ممالک قریب ا ٓگئے تو اس سے خطے میں طاقت کا توازن بہتر ہوگا۔ جنرل (ر) جمشید نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستانی دفتر خارجہ میں ہونے والی بات چیت کو نتیجہ خیز بنایا جائے۔
’’ہم روس کو بہت کچھ دے سکتے ہیں اور روس ہمیں بہت کچھ دے سکتا ہے۔ ہم ایک ایسے خطے میں ہیں، جس کا کوئی دفاعی اور اقتصادی مقابلہ نہیں ہے۔ اس لیے ہم روس کو بہت کچھ دے سکتے ہیں اور چونکہ ہم روس کو درپیش کئی مسائل کو حل کر سکتے ہیں، اس لیے میرے خیال میں باقاعدہ ہوم ورک کر کے مذاکرات کرنے چاہیں۔‘‘
سابق فوجی صدر جنرل (ر) مشرف نے 2003 ء میں روس کا دورہ کیا تھا، جسے پاکستان اور روس کے درمیان تعلقات کے فروغ کے لیے نہایت اہم قرار دیا گیا تھا کیونکہ تب جنرل مشرف کا یہ دورہ اس سے پہلے کے تیس برسوں میں کسی بھی پاکستانی لیڈر کا ماسکو کا پہلا دورہ تھا۔ بعد ازاں شنگھائی تعاون کی تنظیم کے اجلاسوں کے موقع پر بھی پاکستانی اور روسی قیادت کے درمیان ملاقاتیں اور بات چیت جاری رہی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ روس سے تعلقات بہتر ہونے کے نتیجے میں پاکستان کو شنگھائی تعاون کی تنظیم کا مستقل رکن بننے میں بھی مدد ملے گی۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: عصمت جبیں