پاکستان، آٹھ معاونین خصوصی کی تقرری پر تنقید کا طوفان
14 ستمبر 2022کئی حلقوں میں اس فیصلے کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے اور اسے قومی خزانے پر بوجھ قرار دیا جا رہا ہے۔ ناقدین کا دعوی ہے کہ ان آٹھ معاونین خصوصی کے تقرر کے بعد وفاقی کابینہ کا حجم تقریبا 70 کے قریب ہو گیا ہے، جس میں چونتیس وزرا، سات وزیر مملکت، چار مشیر اور پچیس معاونین خصوصی شامل ہیں۔
نئے معاونین خصوصی میں رکن قومی اسمبلی افتخار احمد خان بابر، رکن قومی اسمبلی مہر ارشاد احمد خان، رکن قومی اسمبلی رضا ربانی کھر، رکن قومی اسمبلی مہیش کمار ملانی، پی پی پی کے رہنما فیصل کریم کنڈی، سردار سلیم حیدر، تسنیم احمد قریشی اور محمد علی شاہ شامل ہیں۔
تنقید کا طوفان
پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان آفریدی کا کہنا ہے کہ ملکی خزانے کو لوٹنے کے لیے مزید لوگوں کو شامل کر لیا گیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایک طرف شہباز شریف سرکاری خرچے پر ہیلی کاپٹر کے دورے کر رہے ہیں، جو صرف فوٹو سیشن کے لیے ہے اور دوسری طرف انہوں نے اپنے اتحادیوں کو خوش کرنے کے لیے معاونین خصوصی رکھ لیے ہیں، جس سے قومی خزانے پر مزید بوجھ پڑے گا۔‘‘
اقبال آفریدی کے مطابق یہ ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب ملک پہلے ہی 136 بلین ڈالرز سے زائد کا مقروض ہے۔
انتہائی شرمناک ہے
لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار خالد بھٹی کا کہنا ہے کہ کابینہ کے حجم کو ایک ایسے وقت میں بڑھایا گیا ہے جب سیلاب زدگان کی مدد کے لیے پائی پائی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جنوبی پنجاب، بلوچستان، خیبر پختونخواہ اور سندھ میں سیلاب متاثرین بھوک وافلاس اور دربدری کا شکار ہیں۔ وہ بیماریوں سے مر رہے ہیں اور یہاں وفاقی کابینہ کے حجم کو بڑھایا جارہا ہے۔ اس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ معیشت کو دس سے تیس بلین ڈالرز کا نقصان ہوچکا ہے۔ تیس لاکھ ایکڑ سے زیادہ اراضی تباہ ہوگئی ہے۔ لاکھوں انسان کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ ایسے میں یہ تقرریاں انتہائی شرمناک ہیں۔‘‘
وزرا کی مراعات
خالد بھٹی کے مطابق حکمران طبقہ کی اس دلیل میں کوئی طاقت نہیں کہ وزرا اگر منسٹر انکلیو میں سرکاری گھروں میں رہتے ہیں، تو وہ اس کے پیسے اپنی تنخواہ سے کٹوا دیتے ہیں۔ ''اس جگہ گھر ایک ایک دو دو کینال یا اس سے بھی بڑے ہوتے ہیں۔ اسلام آباد میں ایسے گھر دس لاکھ سے بیس لاکھ کرائے پر ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا سفر مفت ہوتا ہے۔ علاج و معالجہ حکومت کرواتی ہے۔ پٹرول اور دوسری یوٹیلیٹیز پر بھی ان کو بہت رعایت دی جاتی ہے۔ تو ان کی مراعات پر بے تحاشہ پیسہ قومی خزانے سے خرچ ہوتا ہے، جو ان حالات میں سیلاب زدگان پر لگنا چاہیے۔‘‘
خرچے غیر معمولی نہیں ہیں
تاہم حکومت کی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق ڈپٹی چیئرمین سینیٹ صابر علی بلوچ کا کہنا ہے کہ وزرا پر ہونے والے اخراجات بہت معمولی ہیں اور ان کو قومی خزانے پر بوجھ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان 22 کروڑ سے زیادہ آبادی کا ملک ہے، جہاں پر لوگوں کے مسائل کی نوعیت مختلف اور ہرعلاقہ اور ہرصوبہ وفاقی کابینہ میں نمائندگی چاہتا ہے تاکہ اس علاقے کے مسائل حل ہو سکیں۔ موجودہ معاونین میں سے ایک بڑی تعداد ایسے ہی علاقوں کی ہے۔ یہ اتحادی حکومت ہے جس میں حکومت کے دوسرے اتحادیوں کو شراکت اقتدار کے تحت حصہ دینا پڑتا ہے لیکن اس کا مقصد صرف عوام کی خدمت کرنا ہوتا ہے۔‘‘
غلط تصور
صابر علی بلوچ کے مطابق یہ معاونین سیلاب کے بعد پیدا ہونے والے مسائل کو حل کرنے میں وزیر اعظم کی مدد کر سکتے ہیں۔ ''یہ تصور غلط ہے کہ اراکین اسمبلی یا وزرا پر بے تحاشا پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ کچھ لوگ یہاں تک الزام لگا دیتے ہیں کہ وزرا حج اور عمرہ بھی سرکاری پیسے سے کرتے ہیں، جس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اسی طرح زیادہ تر بیرون ملک دوروں کے خرچے مہمان ممالک اٹھاتے ہیں۔‘‘
کابینہ کا حجم: آئین کیا کہتا ہے؟
کئی حلقوں کا یہ دعوی ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاقی سطح پر کابینہ کا حجم اتنا بڑا نہیں ہو سکتا۔ تاہم قانون سازی، پارلیمانی امور اور سیاسی امور کے ماہر احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ وفاقی کابینہ کا حجم بہت زیادہ نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' آئین کی آرٹیکل بانوے کے مطابق وزرا اور وزیر مملکت کی تعداد اراکین پارلیمنٹ کی مجموعی تعداد کا گیارہ فیصد سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ ہماری پارلیمنٹ کی مجموعی تعداد 446 ہے۔ تو اس حوالے سے وفاقی کابینہ کے ارکان کی تعداد اننچاس ہونی چاہیے۔‘‘
تاہم وزیراعظم معاونین خصوصی جتنے چاہے رکھ سکتے ہیں اس کی آئین میں کوئی حد نہیں ہے۔ وزیراعظم نہ صرف ان معاونین کا تقرر کر سکتے ہیں بلکہ ان کو وزیر یا وزیر مملکت کا درجہ بھی دے سکتے ہیں۔