پاکستان بھر میں خواتین کے عالمی دن متعدد تقریبات کا انعقاد
پاکستان بھر میں خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے مختلف تقریبات، ریلیوں اور جلسوں کا انعقاد کیا گیا، جن میں خواتین کے علاوہ بچوں اور مردوں کی معقول تعداد بھی شریک ہوئی۔
عورت مارچ اور نعرے بازی
ایسے اجتماعات میں سخت سکیورٹی میں خواتین تنظیموں کے سینکڑوں ارکان نے شرکت کی، جہاں مقررین نے پدر شاہی، غیرت کے نام پر قتل، گھریلو تشدد اور جبری شادیوں کے خلاف پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے۔ اس موقع پر مقررین نے سخت نعرے بازی کی۔
جماعت اسلامی کی ریلی
اسلام آباد پریس کلب کے پاس ہی جماعت اسلامی کے شعبہ خواتین نے بھی ایک ریلی کا انعقاد کیا۔ کسی تصادم سے بچنے کے لیے سول سوسائٹی کو مظاہرہ ایک بجے شروع کرنے کا کہا گیا تھا جب کہ جماعت اسلامی نے اپنے پروگرام کو دوبجے کے لیے ترتیب دیا تھا۔ جماعت اسلامی کی خواتین ایک بجے ہی جمع ہونا شروع ہو گئی تھیں مگر ان کا پروگرام تقریباﹰ دو بجے شروع ہوا۔
میرا جسم میری مرضی
خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے آٹھ مارچ کو پاکستان میں عورت مارچ پہلی مرتبہ سن 2018 میں منعقد کیا گیا تھا۔ تاہم بعد ازاں یہ مارچ ’میرا جسم میری مرضی‘ کے نعرے کی وجہ سے متنازعہ رنگ اختیار کر گیا۔
بچوں کے ہمراہ شرکت
اسلام آباد میں عورت مارچ میں شریک ایک خاتون نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ اپنی بچیوں کے ساتھ اس مارچ میں شریک ہوئی ہیں تاکہ ان بچیوں کو اپنے حقوق کا ابھی سے پتا چل سکے۔
مردوں کی بھی شرکت
اس بار بھی عورت مارچ میں مردوں نے بھی شرکت کی اور اصرار کیا کہ خواتین کی مکمل شمولیت کے بغیر معاشرہ مکمل ہو ہی نہیں سکتا۔
عورتوں کو آزادی ہونا چاہیے
اسلام آباد میں منعقدہ عورت مارچ میں شریک ایک خاتون نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سبھی مردوں کو اس مارچ پر اعتراض نہیں بلکہ ایسے لوگ خوفزدہ ہیں، جو خواتین کو اپنی ماتحت اور نوکر سمجھتے ہیں۔
سکیورٹی کا سخت انتظام
اسلام آباد میں منعقدہ عورت مارچ میں سکیورٹی کا خصوصی انتظام کیا گیا کیونکہ جہاں ایک طرف خواتین کی ایک بڑی تعداد سالانہ ویمن مارچ میں شریک تھی تو دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن نے تحریکِ عدم اعتماد بھی جمع کرا دی ہے۔
جبری شادی سے انکار
اس سال اسلام آباد میں کیے گئے عورت مارچ میں متعدد خواتین نے جبری شادیوں کے خلاف بھی آواز بلند کی۔ انہوں نے اس حوالے سے مختلف بینرز بھی اٹھا رکھے تھے۔
خوشگوار موڈ
گزشتہ برسوں کی نسبت اس سال کے عورت مارچ میں شرکاء کی تعداد کم تھی۔ تاہم اس برس اسلام آباد میں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آیا۔ اس برس جامعہ حفصہ کی خواتین اور طالبات نے بھی مارچ مخالف ریلی نہیں نکالی۔
تنقید کی زد میں
عورت مارچ کے انعقاد پر بالخصوص قدامت پسند دھڑوں کو شدید اعتراض ہے۔ ایسے حلقوں کے مطابق اس موقع پر کچھ خواتین متنازعہ بینرز اٹھا کر اور نعرے لگا کر ایسی خواتین کو بھی بدنام کرنے کی کوشش کرتی ہیں، جو ’میرا جسم میری مرضی‘ جیسے ’مغربی نعرے‘ کی حمایت نہیں کرتیں۔