پاکستان: بیشتر مساجد نے رمضان لاک ڈاؤن نظر انداز کر دیا
26 اپریل 2020تاہم پاکستان میں پہلے روزے کی شب اسلام آباد اور پنجاب کے مختلف علاقوں کے جائزے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ 80 فیصد مساجد میں نماز تراویح کے موقع ہر ان ہدایات کی پاسداری نہیں کی گئی۔
یہ سروے غیرسرکاری تنظیم 'پتن ترقیاتی تنظیم‘ کی جانب سے کیا گیا۔
سروے کے مطابق، ''96 فیصد مساجد میں لوگ باہر فٹ پاتھ اور سڑکوں پر نماز پڑھتے نظر آئے جب کہ لگ بھگ 89 فیصد نمازی بغیر ماسک پہنے نظر آئے۔‘‘
سروے سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ بیشتر مساجد میں نمازیوں نے ایک دوسرے سے چھ فٹ کا فاصلہ نہیں رکھا اور گھر سے وضو کرکے آنے کی بجائے مساجد میں وضو کرتے رہے۔ سروے میں شامل دو تہائی مساجد میں بزرگوں کے ساتھ بچوں کو بھی دیکھا گیا۔
پتن ترقیاتی تنظیم کے سربراہ سرور باری کا کہنا ہے کہ اس سروے کے لیے تنظیم نے چالیس افراد پر مشتمل ٹیم کو تربیت دی تھی۔ سروے میں شامل ہر رکن نے چار سے پانچ مساجد کا دورہ کیا اور نوٹ کیا کہ حکومتی ہدایات پر کس حد تک عمل ہو رہا ہے۔ پتن کی سروے ٹیم نے پندرہ مختلف شہروں اور قصبوں میں ایک سو چورانوے مساجد کا جائزہ لیا۔
سروے ٹیم کے مطابق مقامی انتظامیہ کی جانب سے علما اور خطیبوں کو حفاظتی اقدامات سے متعلق واضح ہدایات دی گئی تھیں۔ لیکن پولیس حکام گنجان محلوں اور دور دراز علاقوں میں اس پر عمل کراتے نظر نہیں آئے۔ حکام اور علما کا تعاون بڑے شہروں کی مرکزی مساجد تک محدود نظر آیا جس سے بظاہر یہ تاثر ملا کہ جیسے ہدایات پر عمل ہو رہا ہے۔
پتن کی رپورٹ کے مطابق اگر حکومت نے اجتماعی عبادت سے متعلق اپنی ہدایات پر عمل نہ کرایا تو آنے والے دنوں میں یہ خلاف ورزیاں جاری رہیں گی۔
سرور باری کا کہنا ہے کہ مساجد کو روزانہ کی بنیاد پر ڈس انفیکٹ کرنا اور نمازیوں کو مسجد سے نکلتے ہوئے خود کو ڈس انفیکٹ کرنا ضروری ہے تاکہ وائرس ان کے محلے اور گھر والوں تک نہ پھیلے۔
سرور باری کے مطابق چونکہ حکومت پاکستان کے لیے حفاظتی ہدایات پر سو فیصد عمل کرانا ممکن نہیں، اس لیے مساجد میں باجماعت نماز پر پابندی اس کا بہتر حل ہے۔
پتن ترقیاتی تنظیم کا یہ پہلا سروے اسلام آباد، لاہور، فیصل آباد، کمالیہ، جھنگ، لیہ، ملتان، ٹوبہ ٹیک سنگھ، مظفرگڑھ، ڈیرہ غازی خان، تونسہ، شورکوٹ، کوٹ ادو اور علی پور کیا گیا۔
تنظیم کا دوسرا سروے کل پیر کو کیا جائے گا۔