پاکستان، ترکی اور افغانستان کے درمیان مشترکہ فوجی مشقوں پر اتفاق
25 دسمبر 2010پاکستان اور افغانستان کے درمیان بہتر تعلقات کے لئے ترکی کی ثالثی میں مذاکرات کا یہ دور ترکی کے شہر استنبول میں ہوا، جس میں پاکستان کے صدر آصف زرداری اور ان کے افغان ہم منصب حامد کرزئی نے شرکت کی۔ ترک صدر عبداللہ گُل بھی اس موقع پر موجود تھے۔
سہ فریقی مذاکرات کے بعد عبداللہ گُل نے ٹیلی ویژن پر نشر کئے جانے والے اپنے ایک بیان میں کہا، ’ہماری مسلح افواج اب تک جو کام کر چکی ہیں، اس کے نتیجے میں مشترکہ مشقیں آئندہ برس اپریل میں ہوں گی‘۔
ترک صدر نے اپنے بیان میں ان فوجی مشقوں کی تفصیل نہیں بتائی، تاہم استنبول مذاکرات کے بعد جاری کئے گئے مشترکہ اعلامیے کے مطابق یہ مشقیں آئندہ برس 19 سے 27 اپریل تک ترکی میں ہوں گی۔
عبداللہ گُل نے کہا کہ استنبول مذاکرات کے دوران تینوں ممالک کے وزرائے داخلہ اور خارجہ کے ساتھ ساتھ انٹیلی جنس اور عسکری حکام نے بھی علیٰحدہ علیٰحدہ مذاکرات کئے۔ انہوں نے کہا، ’ہم اس اہم پیش رفت پر بہت خوش ہیں‘۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا، ’ہم کامیاب مشقوں کے منتظر ہیں، جو قریبی تعاون کے لئے مضبوط بنیاد فراہم کریں گی‘۔
استنبول میں صحافیوں سے بات چیت میں افغان صدر حامد کرزئی نے تجویز پیش کی کہ افغانستان میں مصالحتی کوششوں کی کامیابی کے لئے طالبان کو ترکی یا کسی دوسرے غیر جانبدار ملک میں اپنا دفتر قائم کرنا چاہئے۔
تینوں ممالک کے درمیان 2007ء سے اب تک مذاکرات کا یہ پانچواں دَور تھا۔ اس وقت انقرہ حکومت نے اسلامی شدت پسندوں کے خلاف کابل اور اسلام آباد کا تعاون بڑھانے کے لئے یہ نشست منعقد کرائی تھی۔
اسلام آباد اور کابل حکومتوں کو باہمی تعلقات کے حوالے سے ایک دوسرے پر تحفظات رہے ہیں، تاہم ان تعلقات میں حالیہ کچھ مہینوں میں بہتری آئی ہے۔
افغان سرحد سے ملحقہ پاکستان کے قبائلی علاقوں کو سرحد پار نیٹو افواج کے ساتھ لڑائی کرنے والے طالبان انتہاپسندوں کا گڑھ قرار دیا جاتا ہے جبکہ افغان اور امریکی حکام کا کہنا ہے کہ وہاں ان شدت پسندوں کو پاکستان کی جانب سے کسی حد تک تحفظ حاصل ہے۔
دوسری جانب پاکستان اس الزام کو ردّ کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ2002ء سے انتہاپسندوں کے ساتھ لڑائی میں اس کے 2,240 فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔
خیال رہے کہ ترکی مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی رکنیت رکھنے والا واحد مسلم اکثریتی ملک ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل/ خبر رساں ادارے
ادارت: امجد علی