پاکستان: تشہیری مہم اور سرکاری اشتہارات تنقید کی زد میں
17 مئی 2022واضح رہے کہ آج شہباز شریف کی حکومت نے کئی قومی اخبارات میں ایک اشتہار شائع کیا ہے، جس میں عوام سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے مجرم کو پہنچانیں۔ اس اشتہار میں عمران خان کی حکومت کی طرف سے آٹا، چینی اور دوسری اشیاء کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ یہ اشتہارات انگریزی روزنامہ دی نیوز اور انگریزی روزنامہ نیشن سمیت کئی قومی اخبارات کو دیے گئے ہیں۔
یہ صرف ن لیگ کی ہی حکومت نہیں بلکہ ناقدین کے خیال میں مختلف حکومتیں اس طرح کی مہم اورغیرضروری سرکاری اشتہاروں پر بے تحاشا پیسہ خرچ کرتی ہیں، جو عوامی فلاح پر خرچ ہونا چاہیے۔
تشہیری مہم چلانے والوں کا احتساب کیا جائے
جمعیت علماء اسلام کے سابق رہنما اور سابق سینیٹر حافظ حسین احمد کا کہنا ہے کہ ن لیگ سمیت جن حکومتوں نے بھی اس طرح اشتہاربازی اور تشہیری مہموں پر پیسہ خرچ کیا ہے، ان کا احتساب ہونا چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرا خیال ہے کہ شریف خاندان نے جو ذاتی تشہیر پر پیسہ خرچ کیا ہے، وہ واپس لیا جانا چاہیے اور سخت قانون سازی کے ذریعے اس عوام کے پیسے کے ضیاع کو روکا جانا چاہیے۔‘‘
حافظ حسین احمد کے بقول اگر شہباز شریف یا حمزہ نے کوئی سرکاری پروجیکٹ مکمل کیا ہے، تو یہ کوئی احسان نہیں۔ ''پروجیکٹ عوام کے پیسے سے مکمل کیا گیا۔ یہ شریف خاندان یا دوسرے حکمرانوں کا ذاتی پیسہ نہیں ہے۔ تو ایسے پروگرام کی عوامی پیسے سے تشہیر کی کیا توجیہہ ہے۔‘‘
تشہیری مہم کی روایت اور سرکاری اشتہارات
واضح رہے پاکستان میں حکومتی پروجیکٹس کی تکمیل یا ان کے افتتاح کے موقع پر پرتعیش تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے اور ان کی خوب تشہیر کی جاتی ہے۔ ماضی میں شہباز شریف جب کسی بھی منصوبے کا افتتاح کرتے تھے یا اس کی تکمیل کے حوالے سے کسی بھی تقریب میں شرکت کرتے تھے، تو لاہور سمیت کئی شہروں میں ان کی تصویر والے پوسٹر آویزاں کردیے جاتے تھے، جن کو عمران خان نے ہدف تنقید بنایا تھا۔
لیکن عمران خان اقتدار میں آئے تو ان کے دور حکومت میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ مختلف پروجیکٹس والے شہروں میں تحریک انصاف کا انتخابی نشان یا عمران خان کی پینا فلیکس اور پوسٹرز لگائے گئے۔ اسی طرح شکریہ کے بینرز سے بھی شہروں کو بھرا گیا۔
میڈیا کو اشتہارات
شہروں میں تشہیری مہم کے علاوہ حکومتیں میڈیا کو بھی اشتہارات دے کر تشہیری مہم چلاتی ہیں۔ مثال کے طور پر 2013 ء سے 2018ء تک رہنے والے پی ایم ایل این کی حکومت نے پندرہ ارب روپے سے زیادہ کے اشتہارات 2013 ء سے 2017 ء تک دیے۔ 2008 ء سے 2013 ء تک رہنے والی پی پی پی کی حکومت نہ صرف بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 3.15 ارب روپیہ کے اشتہار دیے جب کہ خیبرپختونخواہ میں پی ٹی آئی کی گورنمنٹ کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اس نے 2013 ء سے اب تک ڈیڑھ ارب سے زیادہ کے اشتہارات دیے۔ سندھ، پنجاب اور بلوچستان، گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومتوں نے بھی اربوں روپے سن دوہزار چار سے اشتہارات پر خرچ کیے۔
'انتخابات سے پہلے مسلم لیگ ن کو دیوار سے لگا دیاگیا ہے ‘
جبکہ پی ٹی آئی کی حکومت نے صرف دو ہزار اٹھارہ سے نومبر دو ہزار اکیس تک ایک سو پینتالیس کروڑ روپے کے اشتہارات صرف الیکٹرونک میڈیا کو دیے۔
اشتہارات کی ضرورت
جہاں کئی ناقدین ان سرکاری اشتہاروں اور تشہیری مہمات کو غیر ضروری سمجھتے ہیں، وہیں میڈیا کی صنعت کو سمجھنے والے ماہرین اسے پاکستان جیسے ملکوں میں ضروری خیال کرتے ہیں۔ پاکستان میں میڈیا کی تاریخ پر کئی کتابیں تحریر کرنے والے ڈاکٹر توصیف احمد خان کا کہنا ہے کہ سرکاری اشتہارات کے بغیر میڈیا انڈسٹری دیوالیہ ہوجائے گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''امریکہ، برطانیہ اور یہاں تک کہ بھارت میں بھی وزارت اطلاعات و نشریات نہیں ہے اور وہاں میڈیا کا سرکاری اشتہارات پر اتنا انحصار نہیں ہے، جتنا کہ ہمارا۔ لیکن وہاں کا میڈیا اس لیے سرکار پر زیادہ انحصار نہیں کرتا کیونکہ وہاں کا پرائیوٹ سیکٹر بہت مضبوط ہے، جو میڈیا کو اشتہارات دیتا ہے۔‘‘
میرٹ کو اپنائیں
ڈاکٹر توصیف احمد کا کہنا ہے کہ ان اشتہارات کو بند کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ''ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ ویورشپ اور ریڈرشپ کی بنیاد پر ہو اور سرکار اسے میڈیا کو بلیک میل کرنے کا آلہ نہ بنائے۔‘‘
کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ جدید جمہوری ریاستوں کے معیارات کو پاکستان میں لاگو نہیں کیا جا سکتا، جہاں جمہوریت نے ابھی تک جڑیں نہیں پکڑی ہیں۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سکریٹری جنرل ناصر زیدی کا کہنا ہے کہ بھارت میں بھی ریاستی وزرائے اعلٰی سرکاری اشتہارات پر اپنی تصویریں چھپواتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''ہم اس اقدام کی حمایت نہیں کرتے لیکن ہمیں اپنے معروضی حالات بھی دیکھنے چاہیں۔ یہ صرف پاکستان کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ ترقی پزید ممالک میں کئی جگہ ایسی ہی صورت حال ہے۔‘‘
سرکاری اشتہار کے بغیر میڈیا انڈسٹری چلانا مشکل ہے
ناصر زیدی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سرکاری اشتہارات میڈیا ہاوسسز کے ''اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ عمران خان کی حکومت نے صرف چھ ارب روپے مشرف، پی پی پی اور نواز دور کے روکے تھے اور اس سے پوری میڈیا انڈسٹری بحران کا شکار ہوگئی اور ہزاروں صحافی بے روز ہوگئے۔ تو میڈیا کا سرکاری اشتہارات کے بغیر چلنا ممکن نہیں۔‘‘