پاکستان ’خصوصی‘ ذمہ داری پوری کرے، امریکی دفتر خارجہ
13 اپریل 2011ممبئی حملوں کے مجرم رچرڈ ہیڈلی کو تعاون فراہم کرنے کے الزام میں گرفتار پاکستانی نژاد کینیڈین شہری طہور رانا مبینہ طور پر اعتراف کر چکے ہیں کہ یہ کارروائی محض لشکر طیبہ کا آپریشن نہیں تھا۔ رانا کے خلاف عدالتی کارروائی کا آغاز 16 مئی سے ہورہا ہے تاہم اس سے قبل منظر عام پر آنے والی دستاویز کے مطابق انہوں نے ممبئی حملوں میں پاکستانی انٹر سروسز انٹیلی جنس کے ملوث ہونے کی تصدیق کی ہے۔
اسی پیش رفت کے تناظر میں امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے اپنی ہفتہ وار پریس کانفرنس میں کہا کہ پاکستان پر ممبئی حملوں کے ملزمان کو انصاف کے کٹہرے تک لانے کی بین الاقوامی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ٹونر نے طہور رانا کے منظر عام پر آنے والے عدالتی بیان سے متعلق صحافیوں کے سوالات کے جواب نہیں دیے، ’’ میں اس پر تبصرہ نہیں کروں گا کیونکہ یہ ایک زیر سماعت عدالتی معاملہ ہے۔‘‘
رانا سے قبل گزشتہ برس ڈیوڈ ہیڈلی امریکی عدالت کے سامنے ممبئی حملوں کی ذمہ داری پہلے ہی قبول کرچکے ہیں۔ ہیڈلی نے پاکستان کے ایک میجر اقبال نامی شخص پر مالی مدد فراہم کرنے کا الزام بھی عائد کیا تھا۔
اب طہور رانا کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ اپنی صفائی میں جو دستاویز وہ عدالت کے سامنے پیش کر چکے ہیں، اس میں انہوں نے لشکر طیبہ سے لاتعلقی ظاہر کی ہے۔ کینیڈین اخبار گلوب اینڈ میل نے یہ دستاویز حاصل کرکے اسے شائع کیا ہے۔
اس دستاویز کے مطابق، ’’رانا نے دہشت گردوں کو مشتبہ طور پر مادی تعاون فراہم کرنے کا غیر قانونی فعل لشکر طیبہ نہیں بلکہ پاکستانی حکومت اور آئی ایس آئی کے کہنے پر سر انجام دیا تھا۔‘‘ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ آئی ایس آئی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ پاکستان کے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے بھارت میں کارروائی کرے۔ ان کے اس بیان کو پاکستانی حکومت کے سائے میں پناہ حاصل کرنے کی کوشش کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔
اس کینیڈین اخبار نے متعلقہ عدالت کے جج کا وہ بیان بھی جاری کیا ہے، جس میں رانا کی جانب سے امریکی قوانین کی مبینہ خلاف ورزی کے خلاف پیش کی گئی دلیل کو مسترد کیا گیا ہے۔ 49 سالہ رانا کے متعلق بتایا جا رہا ہے کہ انہوں نے رچرڈ ہیڈلی کو ممبئی میں سفری سہولیات کا دفتر کھولنے میں تعاون فراہم کیا تھا۔ اسی دفتر کو بنیاد بناکر ہیڈلی نے ممبئی حملوں کے لیے اہداف چُنے تھے۔
یاد رہے کہ نومبر 2008ء میں کیے گئے ممبئی حملوں میں بہت سے غیر ملکیوں سمیت ڈیڑھ سو سے زائد افراد کی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت : مقبول ملک