پاکستان: زر مبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم، اسباب اور حل
25 اکتوبر 2022ماہرین کا خیال ہے کہ اس سے نہ صرف ادائیگیوں کا توازن بری طرح متاثر ہو سکتا ہے بلکہ سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچ سکتی ہے، جس کے پاکستانی معیشت پر بہت ہی منفی اثرات ہوں گے۔
پاکستان کو تباہ کن سیلابوں کے بعد ’فوڈ اِن سکیورٹی‘ کا سامنا
کئی حلقوں کا خیال ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف اپنے دورہ سعودی عرب کے دوران خلیج کی اس قدامت پسند عرب بادشاست سے درخواست کریں گے کہ وہ پاکستان کے لیے تین بلین ڈالر کے مالی وسائل کو 'رول اوور‘ کرے۔
زر مبادلہ میں کمی کے اسباب
ماضی میں پاکستانی وزارت خزانہ سے وابستہ رہنے والے مالیاتی امور کے ماہر ڈاکٹر خاقان نجیب کا کہنا ہے کہ دو طرفہ اور کئی طرف محاذ پر ڈالر کے بہاؤ میں کمی آئی ہے، جس سے ڈالر کے ملکی ذخائر بھی کم ہوئے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جون کے آخر سے لے کر اب تک 2.2 بلین ڈالر کم ہوئے ہیں اور اس وقت ہمارے پاس 7.6 بلین ڈالر موجود ہیں، جن سے ہم صرف قریب چالیس دن تک کی درآمدات کے لیے ادائیگیاں کر سکتے ہیں۔ دراصل ہمارے پاس یہ ذخائر کم از کم تین ماہ تک کی درآمدات کی ادائیگیوں کے لیے ہونا چاہییں۔‘‘
اسحاق ڈار چوتھی مرتبہ وزیر خزانہ بن گئے
خاقان نجیب کے مطابق پاکستانی تارکین وطن نے بھی کم پیسے بھیجے ہیں، جو کمی کا ایک اور سبب ہے۔ ''مالی سال دو ہزار اکیس بائیس میں انہوں نے 32.9 بلین ڈالر بھیجے تھے جب کہ موجودہ سال کی پہلی سہ ماہی میں ان رقوم میں چھ فیصد کمی ہوئی۔ براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں بھی اس سال کی پہلی سہ ماہی میں 62 فیصد کمی ہوئی۔ تو یہ پہلو بھی ان ذخائر میں کمی کے بڑے اسباب میں شامل ہیں۔‘‘
ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال دیا
پاکستان کے مالیاتی امور پر قریب سے نظر رکھنے والے صحافی شہباز رانا کا کہنا ہے کہ قرضوں کی ادائیگی کی وجہ سے بھی زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی ہوئی ہے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والی ماہر معیشت ڈاکٹر شاہدہ وزارت کہتی ہیں کہ پرتعیش اشیاء کی درآمد اس کمی کے مسئلے کو مزید سنگین بنا رہی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ حکومت جب اقتدار میں آئی، تو اسے معلوم تھا کہ یہ ذخائر کم ہو رہے ہیں۔ اس کے باوجود پالتو جانوروں کی خوراک، چاکلیٹس اور شیمپو تک درآمد کیے جا رہے ہیں۔ ان درآمدات پر تو پر فوراﹰ پابندی لگنا چاہیے تھی۔‘‘
حل کیا ہے؟
ڈاکٹر شاہدہ وزارت کے مطابق پاکستان کو امریکی ڈالر میں خرید و فروخت کی اپنی روایت توڑنا ہو گی۔ ''کئی ممالک پاکستان کے ساتھ مقامی کرنسی میں تجارت کرنے پر تیار ہیں۔ روس مقامی کرنسی میں بھی پاکستان کے ساتھ تجارت پر آمادہ ہے اور بارٹر ٹریڈ بھی کر سکتا ہے۔ لیکن پاکستانی حکومت جو پالیسی اپنا رہی ہے، وہ ملک کے معاشی استحکام کے لیے نہیں بلکہ ڈالر کو مزید مضبوط کرنے کے لیے ہے اور یوں امریکی معیشت کو فائدہ پہنچانے کے لیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جہاں ہم ڈالر کے بغیر تجارت کر سکتے ہیں، وہاں ہم ایسا ہی کریں تاکہ ہمارے ہاں زر مبادلہ کے ذخائر کم نہ ہوں۔‘‘
تباہ کن سیلاب کے نتیجے میں پاکستان میں تعلیم کا بحران بھی
کئی ماہرین کا خیال ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پاکستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ بیرونی سر مایہ کاری کی صورت میں ان ذخائر میں کمی کو کم کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر خاقان نجیب کے مطابق حکومت دوطرفہ اور کئی طرفہ ایجنسیوں سے مالی مدد لینے کے علاوہ دوست ممالک جیسے کہ سعودی عرب، چین، متحدہ عرب امارات وغیرہ سے بیرونی سرمایہ کاری کی درخواست بھی کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی کمرشل بینکوں سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔‘‘
مالی منظر نامہ
پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر ایک ایسے وقت پر خطرناک حد تک کم ہوئے ہیں، جب ملک پہلے ہی سیلابوں سے ہونے والے 30 بلین ڈالر سے زیادہ کے نقصانات کے باعث مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے مزید 90 لاکھ سے زائد شہری خط غربت سے نیچے چلے جائیں گے۔ اس قدرتی آفت نے گندم، کپاس، چاول اور سبزیوں سمیت کئی طرح کی فصلوں کو تباہ کیا ہے، جو اب ہمیں درآمد کرنا پڑیں گی اور اس درآمد کے لیے بھی کافی زرمبادلہ موجود ہونا ضروری ہے۔
پاکستان: مہنگائی 47 سال کی بلند ترین سطح پر
موجودہ مالی سال کے دوران پاکستان کو اپنی مالیاتی ضروریات پورا کرنے کے لیے کم از کم 32 سے 34 بلین ڈالر کی بیرونی فنانسنگ کی ضرورت ہے۔ اسلام آباد کو ابھی تک صرف 2.23 بلین ڈالر ہی مل سکے ہیں۔
شہباز رانا کا کہنا ہے کہ اس خراب مالیاتی صورت حال میں کچھ بہتری زر مبادلہ کے ذخائر کے حوالے سے آئے گی کیونکہ آئندہ دنوں میں پاکستان کو چند اداروں سے مزید زر مبادلہ ملنے کی امید ہے۔ تاہم ڈاکٹر شاہدہ وزارت کے مطابق اگر غیر ضروری درآمدات کو روکا نہ گیا اور بیرونی تجارت کے لیے ڈالر پر انحصار کم نہ کیا گیا، تو ملک دیوالیہ بھی ہو سکتا ہے۔