پاکستان: زرداری اور کیانی کے درمیان مبینہ اختلافات
1 جنوری 2010قومی مصالحتی آرڈینینس کو غیر قانونی قرار دینے کے اقدام کو شک و شبے کی نگاہ سے دیکھنے والوں میں چند مبصرین کے ساتھ ساتھ حکمران پیلپز پارٹی بھی شامل تھی۔ اِن مفروضوں کی ایک بنیادی وجہ صدر زرداری اور پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق کیانی کے مابین مبینہ اختلافات تھے۔
ان اختلافات کا بظاہر آغاز 28 جولائی 2008ء کو ہوا، جب وزیراعظم نے امریکہ روانگی سے قبل آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے کا حکم نامہ جاری کیا۔ بعد ازاں نومبر2008ء میں ممبئی کے دہشت گردی کے واقعات کے تناظر میں صدر زرداری نے بھارت کے حوالے سے مبینہ طور پر جو نرم رویہ اختیار کیا، وہ بھی فوجی قیادت کے لئے پریشانی کا سبب بنا کیونکہ صدر مملکت کے طرزِ عمل کو پاکستانی سیکیورٹی مفادات سے متصادم تصور کیا گیا۔
اس اختلاف رائے نے سپریم کورٹ کے این آر او سے متعلق فیصلے کے بعد بظاہر مزید شدت اختیار کر لی ہے، حتیٰ کہ صدر زرداری نے 27 دسمبر کو نوڈیرو میں پارٹی کارکنوں سے خطاب میں ٹینیور پوسٹ کا ذکر کرتے ہوئے بظاہر پاک فوج کے سربراہ کو نشانہ بنایا۔
اسی پس منظر میں تجزیہ نگار ڈاکٹر سرور باری کا کہنا ہے:"مسئلہ یہ ہے کہ پاکستانی فوج یہ سمجھتی ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اور سیکیورٹی کے حوالے سے آخری و حتمی فیصلہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کرے گی۔ جب تک یہ مسئلہ سیاستدان مل کر طے نہیں کرتے، اس وقت تک یہ جھگڑا چلتا رہے گا۔ کیونکہ فوجی اسٹیبلشمنٹ سیاستدانوں پر اعتماد نہیں کرتی۔ وہ اس لئے کہ بہت سی سیاسی جماعتیں ایسی ہیں، جن کے پاس کوئی تھنک ٹینک یا ماہرین نہیں ہیں۔ کرائے پر چند ریٹائرڈ ڈپلومیٹس حاصل کر لئے جاتے ہیں لیکن یہ تھنک ٹینک کے زمرے میں بہرحال نہیں آتے۔"
مبصرین کا کہنا ہے کہ ایوان صدر اور جنرل ہیڈ کوارٹر کے مابین اختلافات اس وجہ سے بھی اہمیت اختیار کر گئے ہیں کہ جنرل کیانی اس سال نومبر میں ریٹائر ہو رہے ہیں اور عین ممکن ہے کہ صدر زرداری کو فوج کے نئے سربراہ کی نامزدگی میں بھی مشکلات پیش آئیں، جس کے باعث آئندہ مہینوں کے دوران سیاسی منظر نامے میں مزید پیچیدگیاں بھی پیدا ہو سکتی ہیں۔
رپورٹ: امتیاز گل، اسلام آباد
ادارت: امجد علی