1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
جرائمعالمی

پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین سیاستدان فیک پورن کا نشانہ

6 جنوری 2025

امریکہ، برطانیہ، اٹلی اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین سیاستدانوں کو ڈیپ فیک جنسی ویڈیوز یا تصاویر کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ چیز ایک ٹرینڈ کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے، جو انتہائی پریشان کن رجحان ہے۔

https://p.dw.com/p/4orPF
ڈیپ فیک تصاویر کا تجزیہ
پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین سیاستدانوں کو ڈیپ فیک جنسی ویڈیوز یا تصاویر کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔تصویر: NZZ format

امریکہ سے لے کر اٹلی، برطانیہ اور پاکستان تک، خواتین سیاست دان مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ ڈیپ فیک پورنوگرافی یا جنسی تصاویر کا شکار ہو رہی ہیں۔ اس پریشان کن رجحان کے بارے میں محققین کا کہنا ہے کہ اس سے خواتین کی عوامی زندگی میں شرکت کو خطرہ لاحق ہے۔

پاکستان: ڈیپ فیکس خواتین سیاستدانوں کے خلاف استعمال کیا جانے والا ہتھیار

ڈیپ فیک ٹیکنالوجی سے آڈیو اور ویڈیو کس طرح تیار کی جاتی ہیں؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ بنا رضامندی کے تیار کردہ ڈیپ فیکس میں آن لائن اضافہ عالمی سطح پر اس ٹیکنالوجی کو ریگولیٹ کرنے کی کوششوں کی نسبت کہیں تیز رفتار ہے۔ اس کی ایک وجہ مصنوعی ذہانت کی حامل ایسی سستی ایپس کی بڑھتی ہوئی تعداد بھی ہے، جو کسی بھی خاتون کی تصویر کو بے لباس کر کے دکھا سکتی ہیں۔

محققین کا کہنا ہے کہ ان تصاویر کو اکثر عوامی سطح پر کوشاں خواتین کی ساکھ کو خراب کرنے، ان کے کیریئر کو خطرے میں ڈالنے اور عوامی اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طرح بلیک میلنگ یا ہراسانی جیسے حالات پیدا کر کے قومی سلامتی کو بھی خطرے سے دوچار کیا جا سکتا ہے۔

امریکہ میں ڈیپ فیک پورن کا نشانہ، خواتین سیاستدان

امریکہ میں غلط معلومات پر تحقیق کرنے والے گروپ امریکن سن لائٹ پراجیکٹ نے ڈیپ فیک مواد کے 35 ہزار سے زائد واقعات کی نشاندہی کی ہے۔ مختلف فحش ویب سائٹس پر موجود یہ مواد کانگریس کے 26 ارکان کے بارے میں ہے، جن میں سے 25 خواتین ہیں۔

گروپ کی جانب سے گزشتہ ماہ شائع ہونے والی ایک رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ کانگریس میں ہر چھ میں سے ایک خاتون مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ اس طرح کی تصاویر کا شکار ہوئی ہے۔

اطالوی وزیر اعظم جارجیا میلونی
اٹلی میں وزیر اعظم جارجیا میلونی نے ان کی ڈیپ فیک فحش ویڈیوز بنانے اور انہیں امریکی فحش ویب سائٹس پر پوسٹ کرنے کے الزام میں دو افراد پر ایک لاکھ یورو ہرجانے کا دعویٰ دائر کر رکھا ہے۔تصویر: Mohamed Abd El Ghany/REUTERS

اے ایس پی کی چیف ایگزیکٹیو نینا جانکووچ کا کہنا ہے، ''خواتین قانون سازوں کو خطرناک رفتار سے مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ ڈیپ فیک پورنوگرافی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘‘

اے ایس پی نے تصاویر میں دکھائی گئی خواتین قانون سازوں کے نام جاری نہیں کیے، لیکن اس کا کہنا ہے کہ اس نے نجی طور پر ان کے دفاتر کو مطلع کیا ہے۔

برطانیہ اور اٹلی میں خواتین سیاستدانوں کو نشانہ بنانے کے واقعات

برطانیہ میں نائب وزیر اعظم انجیلا رینر ان 30 سے زائد برطانوی خواتین سیاست دانوں میں شامل ہیں جنہیں ڈیپ فیک پورن ویب سائٹ نے نشانہ بنایا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس ویب سائٹ نے مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ایک درجن کے قریب سیاست دانوں کی تصاویر کو ان کی رضامندی کے بغیر برہنہ تصاویر میں تبدیل کیا۔

ٹیکنالوجی کی ترقی نے مصنوعی ذہانت کی مدد سے جنسی مواد پر مبنی اور تیزی سے پھیلتی گویا کاٹیج انڈسٹری کو جنم دیا ہے، جہاں کسی بھی فرد کی تصاویر سے کپڑے ڈیجیٹل طور پر ہٹانے یا جنسی متن پر مبنی پرامپٹ استعمال کر کے ڈیپ فیک جنسی نوعیت کی ویڈیوز تیار کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت کے حامل ٹولز کی وسیع تعداد اس مقصد کے لیے دستیاب ہے۔

اٹلی میں وزیر اعظم جارجیا میلونی نے ان کی ڈیپ فیک فحش ویڈیوز بنانے اور انہیں امریکی فحش ویب سائٹس پر پوسٹ کرنے کے الزام میں دو افراد پر ایک لاکھ یورو ہرجانے کا دعویٰ دائر کر رکھا ہے۔

پاکستان کے صوبہ پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری
پاکستان کے صوبہ پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے کہا کہ جب انہیں آن لائن ایک ڈیپ فیک ویڈیو ملی، جس میں ان کا چہرہ ایک بھارتی اداکارہ کے برہنہ جسم پر لگایا گیا تھا تو یہ چیز ان کے لیے شدید تکلیف کا باعث بنی۔تصویر: PPI/Zumapress/picture alliance

اطالوی خبر رساں ادارے اے این ایس اے کے مطابق میلونی نے گزشتہ سال ایک عدالت کو بتایا تھا کہ یہ خواتین کے خلاف تشدد کی ایک شکل ہے:

’’مصنوعی ذہانت کی آمد کے ساتھ، اگر ہم کسی عورت کا چہرہ کسی دوسری عورت کے جسم پر لگانے کی اجازت دیتے ہیں، تو ہماری بیٹیاں خود کو بھی ایسے ہی حالات میں پائیں گی، یہی وجہ ہے کہ میں اس جنگ کو جائز سمجھتی ہوں۔‘‘

پاکستان میں خواتین سیاستدانوں کو ڈیپ فیک کا نشانہ بنانے کے واقعات

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے حقائق کی چھان بین کرنے والے ماہرین نے پاکستان میں ایک ڈیپ فیک ویڈیو کو جعلی قرار دیا، جس میں ایک خاتون قانون ساز مینا مجید کو ایک غیر متعلقہ مرد وزیر کو سرعام گلے لگاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

ایک اور واقعے میں پاکستان کے صوبہ پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے کہا کہ جب انہیں آن لائن ایک ڈیپ فیک ویڈیو ملی، جس میں ان کا چہرہ ایک بھارتی اداکارہ کے برہنہ جسم پر لگایا گیا تھا تو یہ چیز ان کے لیے شدید تکلیف کا باعث بنی۔

ٹیک پالیسی پریس نامی غیر منافع بخش ادارے نے گزشتہ سال متنبہ کیا تھا کہ ''سیاست میں خواتین کو ہراساں کرنے کے لیے استعمال ہونے والی مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ تصاویر اور ویڈیوز کا خوفناک اثر ایک بڑھتا ہوا رجحان ہے۔‘‘

پاکستان میں جنسی ڈیپ فیک سے نمٹنے کے لیے قانون سازی کا فقدان ہے۔ برطانیہ کے قوانین ڈیپ فیک پورن کو شیئر کرنے کو جرم قرار دیتے ہیں اور حکومت نے رواں سال اس کی تیاری پر پابندی عائد کرنے کا وعدہ کیا ہے، لیکن اب تک کوئی حتمی ٹائم ٹیبل طے نہیں کیا گیا ہے۔

اے آئی کے ذریعے دھوکہ دہی، آپ خود کو کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں؟

کیلیفورنیا اور فلوریڈا سمیت مٹھی بھر امریکی ریاستوں نے جنسی طور پر واضح ڈیپ فیکس کو قابل سزا جرم قرار دینے والے قوانین منظور کیے ہیں اور اس کے خلاف مہم چلانے والے کانگریس سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ ان کی تخلیق اور پھیلاؤ کو روکنے کے لیے فوری طور پر متعدد بل منظور کرے۔ 

اگرچہ گلوکارہ ٹیلر سوئفٹ جیسی مشہور شخصیات اور ہائی پروفائل سیاست دان ڈیپ فیک پورن کا شکار رہی ہیں لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ عوام کی نظروں میں نہ آنے والی خواتین بھی اتنی ہی اس کا شکار ہو رہی ہیں۔

اے ایس پی کی جانب سے امریکی کانگریس کی خواتین سیاستدانوں کو مطلع کیے جانے کے بعد مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ جعلی تصاویر کو ویب سائٹس سے تقریبا مکمل طور پر ہٹا دیا گیا۔ تاہم اے ایس پی کا کہنا ہے، ''جن خواتین کے پاس کانگریس کے ارکان کو فراہم کردہ وسائل کی کمی ہے، اگر وہ خود ان ویب سائٹس سے مواد ہٹانے کی درخواست شروع کر دیں تو ڈیپ فیک پورنوگرافی سائٹس کی جانب سے اتنی تیزی سے ردعمل حاصل کرنے کا امکان نہیں ہو گا۔‘‘

ا ب ا/ا ا (اے ایف پی)