’پاکستان سے سنی باغیوں کا حملہ‘، آٹھ ایرانی سرحدی محافظ ہلاک
7 اپریل 2015خبر رساں ادارے اے ایف پی نے تہران سے اپنی رپورٹوں میں بتایا ہے کہ سنی باغی پیر چھ اپریل کی رات سرحد پار کر کے ایرانی علاقے میں داخل ہوئے تو ان کی ایرانی سرحدی محافظوں کے ساتھ جھڑپ شروع ہو گئی۔ تاہم یہ سنی باغی آٹھ ایرانی سرحدی محافظوں کو ہلاک کر کے واپس پاکستانی سرحد کی طرف فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ پاکستانی سرحد سے متصل ایرانی صوبے سیستان بلوچستان کے نائب گورنر علی اصغر کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، ’’مسلح دہشت گرد پاکستان کی سرحد سے ایران میں داخل ہوئے تھے۔‘‘
پاکستانی صوبے بلوچستان میں سنی مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی رہتی ہے۔ ماضی میں بھی پاکستان کے اس علاقے سے شیعہ اکثریتی ملک ایران میں سرحد پار کارروائیوں کے متعدد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ ایرانی میڈیا نے اس تازہ حملے کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ سنی جنگجو گروہ جیش العدل نے اس خونریز حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ مزید کہا گیا ہے کہ پیر کی رات سنی باغیوں نے نگور ضلع میں داخل ہو کر یہ کارروائی کی۔
اکتوبر 2013ء میں بھی ایک ایسا ہی واقعہ رونما ہوا تھا، جس میں جیش العدل نے ایران میں داخل ہو کر چودہ ایرانی سکیورٹی گارڈز کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس واقعے کے بعد سے گزشتہ شب رونما ہونے والا واقعہ خونریز ترین قرار دیا جا رہا ہے۔
اے ایف پی نے ایرانی میڈیا کے حوالے سے بتایا ہے کہ علی اصغر نے اسلام آباد حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان سنی باغیوں کو گرفتار کر کے تہران کے حوالے کرے۔ آج منگل کے روز سیستان بلوچستان کے نائب گورنر نے مزید کہا کہ پاکستان کو ان دہشت گردوں کو ٹھکانے مہیا نہیں کرنا چاہییں۔
ایرانی جنرل محمد پاکپور کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ کل پیر کے دن ایران کے محافظینِ انقلاب نے نگور میں ایک کارروائی کرتے ہوئے تین مشتبہ جنگجوؤں کو ہلاک جبکہ دو دیگر کو زخمی کر دیا۔ ’’پیر کی صبح ملکی دستوں نے قصر قند اور نکشاہر میں بیرونی خفیہ سروسز سے وابستہ ایک دہشت گرد گروہ کو ناکارہ بنا دیا۔‘‘
ایرانی میڈیا کے مطابق ملکی سکیورٹی فورسز پر عراقی سرحد سے بھی حملہ کیا گیا ہے۔ ایران کی مغربی سرحدوں سے متصل عراقی علاقوں میں بھی سنی کمیونٹی اکثریت میں آباد ہے۔ فارس نیوز ایجنسی نے حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ عراقی سرحدی علاقوں سے کیے جانے والے مختلف حملوں کے نتیجے میں اکیس مارچ سے اب تک کم ازکم آٹھ سکیورٹی اہلکار مارے جا چکے ہیں۔
ایرانی صوبے سیستان بلوچستان کی سرحد پاکستان اور افغانستان دونوں سے ملتی ہے۔ ایرانی حکومت سرحد پار حملوں کو روکنے کے لیے لاکھوں ڈالر خرچ کر کے ایک ہزار 800 کلو میٹر طویل ایک حفاظتی دیوار بھی تعمیر کر رہی ہے۔ 1990ء میں شروع کیا گیا یہ منصوبہ متوقع طور پر رواں برس کے اواخر تک مکمل ہو جائے گا۔ ایران کے ان سرحدی علاقوں میں منشیات کے اسمگلر بھی بہت فعال ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان اور افغانستان سے مشرق وسطیٰ، یورپ اور شمالی افریقہ تک افیون اور ہیروئن کی اسمگلنگ کے لیے یہ روٹ انتہائی اہم ہے۔