پاکستان سے نقل مکانی کرنے والے ہندوؤں کی بڑھتی تعداد
9 مارچ 2012خبر رساں ادارے اے ايف پی کی ايک رپورٹ ميں اس بات کا انکشاف کيا گيا ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران پاکستان ميں ہندو مذہب کے ماننے والوں کے خلاف اغواء برائے تاوان، قتل اور جوان لڑکيوں کو زبردستی اسلام قبول کروانے کے واقعات ميں اضافہ ہوا ہے۔ ملکی حکومت کی جانب سے اس مسئلے پر کوئی خاطر خواہ کارروائی ديکھنے ميں نہيں آ ئی اور يہی وجہ ہے کہ متعدد ہندو خاندان ملک چھوڑ کر ہندوستان اور ديگر ممالک کا رخ کر رہے ہيں۔
ملک ميں ہندو کميونٹی کے ايک فلاحی ادارے پاکستان ہندو سيوا کے مطابق سن 2008 سے ماہانہ تقريباً دس خاندان پاکستان سے نقل مکانی کر رہے ہيں جبکہ گزشتہ دس ماہ کے دوران اس تعداد ميں خاطر خواہ اضافہ ريکارڈ کيا گيا اور تقريباً چار سو خاندانوں نے پاکستان چھوڑ کر کسی دوسرے ملک ميں اپنا گھر بسايا۔ اس ادارے کا يہ بھی دعویٰ ہے کہ نقل مکانی کرنے والے ہندوؤں کی اکثريت بھارت ميں گھر بساتی ہے۔ پاکستان ہندو کونسل کے سربراہ رميش کمار ونکوانی نے اے ايف پی سے بات کرتے ہوئے بتايا، ’اکثر و بيشتر ہميں يہ خبريں ملتی ہيں کہ لوگ اپنا وطن چھوڑ کر جا رہے ہيں جبکہ آج کل ان واقعات ميں اضافہ ہو رہا ہے۔ لوگ خوفزدہ ہيں ليکن حکومت خاموش تماشائی بنی بيٹھی ہے‘۔
ادھر بھارتی وزارت خارجہ کے ايک اہلکار نے بھی ان خبروں کی تصديق کرتے ہوئے کہا کہ ہر ماہ تقريباً آٹھ سے دس خاندان پاکستان سے ہندوستان منتقل ہو رہے ہيں۔ وزارت خارجہ کے اس اہلکار نے، جو اپنی شناخت ظاہر نہيں کرنا چاہتے تھے، مزيد کہا، ’نقل مکانی کرنے والے اکثر خاندان مالی طور پر اچھے ہوتے ہيں‘۔
دوسری جانب ہندوؤں کے خلاف رونما ہونے والے ان واقعات پر پاکستان ميں آزادانہ سوچ رکھنے والے شہری اور انسانی حقوق سے متعلق ادارے فکرمند دکھائی ديتے ہيں۔ صوبہ سندھ ميں ہيومن رائٹس فورم کی سربراہ رباب جعفری نے اے ايف پی کو بتايا، ’گزشتہ دنوں ميں امتيازی سلوک کے باعث سينتيس خاندان سندھ کے علاقے تھل سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے جبکہ تين ہندوؤں کو شکار پور ميں قتل کر ديا گيا‘۔ رباب جعفری کے بقول روزانہ اسی نوعيت کے متعدد واقعات رونما ہو رہے ہيں اور اکثر اوقات ان واقعات کو رپورٹ بھی نہيں کيا جاتا۔ ہيومن رائٹس فورم کی سربراہ نے يہ بھی دعویٰ کيا کہ چند عناصر دانستہ طور پر ہندو برادری کو نقل مکانی پر مجبور کر رہے ہيں۔
پاکستان کی آبادی 174 ملين افراد پر مشتمل ہے اور اس کا 2.5 فيصد حصہ ہندو برادری پر مشتمل ہے۔ ملک ميں بسنے والے نوے فيصد ہندو جنوبی صوبہ سندھ ميں رہتے ہيں اور ان کی اکثريت متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے اور يہی وجہ ہے کہ ان افراد کو تاوان کے ليے اغواء کيا جاتا ہے۔ اس امر ميں سندھ کی ہيومن رائٹس فورم کی سربراہ رباب جعفری کا کہنا ہے کہ ہندوؤں کی نقل مکانی اقتصادی لحاظ سے پاکستان کے حق ميں نہيں ہے کيونکہ متعدد پاکستانی ہندو ڈاکٹر، انجينيئر، سرمايہ کار یا پھر دانشور ہيں۔
صوبائی وزیر برائے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن مکيش کمار چاولہ نے اس تاثر کو غلط قرار ديتے ہوئے اپنے ايک بيان ميں کہا ہے کہ صوبے ميں صورتحال يقيناً خراب ہے البتہ يہ صورتحال سب کے ليے يکساں ہے اور يہ تاثر درست نہيں کہ محض ہندو برادری کو نشانہ بنايا جا رہا ہے۔ چاولہ کے بقول ہندو برادری بہتر روزگار اور سرمايہ کاری کے مواقع کی دستيابی کے باعث ہندوستان کا رخ کررہی ہے۔
رپورٹ: عاصم سليم
ادارت: امجد علی