پاکستان: شادیوں کے بعد خواتین کی بیرون ملک فروخت
24 فروری 2017سوات میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’’ خوئندو جرگہ‘‘ کی چئیر پرسن تبسم عدنان نے انکشاف کیا ہے کہ سوات میں شادی کی آڑ میں خواتین کی فروخت کے لیے متعدد گروہ سرگرم ہیں جو خواتین اور ان کے خاندان والوں کو سبز باغ دکھا کر پیسوں کے عوض شادیاں کرواتے ہیں اور پھر ان خواتین کو جسم فروشی کے لیے فروخت کر دیا جاتا ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا،’’ہماری تنظیم کے پاس پانچ کیس ایسے آئے ہیں جن میں والدین نے پیسوں کی خاطر اپنی بیٹیوں کی شادیاں کروائیں اور پھر ان لڑکیوں پر وہاں نہ صرف تشدد کیا گیا بلکہ ان سے غیر اخلاقی کام بھی کروائے جاتے رہے۔‘‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ان لڑکیوں اور خواتین کا تعلق زیادہ تر دیہاتی علاقوں سے ہوتا ہے جہاں پر اس قسم کے گروہ آسانی سے اپنا کام کر تے ہیں، ’’ہمارے پاس جو خواتین فریاد لے کر آئیں ان کو یا تو دبئی یا اندرون ملک فروخت کیا گیا تھا، بعض خواتین کو تو ہم نے خلع دلوائی ہے لیکن کچھ ایسی بھی ہیں جو ابھی بھی ان لوگوں کے چُنگل سے آزاد نہیں ہو پائی ہیں۔‘‘
دبئی میں جسم فروشی، پاکستانی خواتین کا المیہ
سوات کے علاقے منگلور کی رہائشی بیس سالہ لڑکی شمع نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس کی شادی اس کی مرضی کے خلاف پشاور کے ایک رہائشی سے ہوئی تھی۔ شادی کے پہلے دنوں میں تو حالات معمول کے مطابق رہے پھر، ’’ ایک دن میرا شوہر مجھے ڈانس کروانے لے گیا اور جب میں نے انکار کیا تو میرے والدین کو قتل کرنے کی دھمکی دی گئی، پھر بعدازاں مجھ سے جسم فروشی کا کام بھی لیا جانے لگا۔ ‘‘
اقوام متحدہ کے منشیات اور جرائم کے دفتر سے جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایسے گروہ سرگرم ہے، جنہوں نے 2013 کے دوران انسانی اسمگلنگ سے 927 ملین ڈالرکمائے جبکہ پاکستانی وزارت داخلہ کے مطابق ملک میں ایسے تقریباﹰ ایک ہزار گروہ موجود ہیں، جو انسانی اسمگلنگ میں ملوث ہیں۔
خواتین کے فروخت اور کاروبار کے حوالے سے خیبر پختون خواہ کے ایک پولیس آفیسر حبیب اللہ خان نے بتایا کہ اس قسم کے کیسز یا تو مقامی این جی اوز کے دفاتر میں رجسٹرڈ ہوتے ہیں یا دیہات کی سطح پر جرگہ کے ذریعے ان کو آپس میں حل کر لیا جاتا ہے، ’’ ہمارے پاس ابھی تک خواتین کے شادی کی آڑ میں ان کی فروخت کا کوئی بھی ایک کیس یا مقدمہ درج نہیں ہوا ہے۔‘‘
خوئندو جرگہ تنظیم کے مطابق سوات سمیت صوبہ خیبر پختون خواہ کے دیگر علاقوں میں اس قسم کے واقعات میں بتدریج اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ مبینہ طور پر ان خواتین کو 25 ہزار سے دو لاکھ روپے میں شادی کرکے خریدا جاتا ہے اور پھر بیرون ملک مہنگے داموں فروخت کر دیا جاتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومتی سطح پر ان گروہوں کے خلاف کارروائی نہ ہونے سے یہ لوگ اور مضبوط اور متحرک ہو رہے ہیں۔
تبسم عدنان کے مطابق دیہاتوں کی سطح پر اس مسئلے کے خلاف آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے تاکہ جب والدین اپنی بیٹی کی شادی کسی غیر مقامی شخص سے کریں تو اس سے پہلے باقاعدہ طور پر ان کے بارے معلومات حاصل کی جائے۔