1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: غریب عوام اور اس کے مسائل اللہ کے حوالے

4 نومبر 2020

پاکستان دنیا کا ایک ایسا ملک ہے، جہاں سال میں چار موسموں کے رنگ دیکھے جا سکتے ہیں لیکن جناب پاکستان کا ایک ایسا موسم بھی ہے، جو نہ بدلتا ہے اور نہ اس کا رنگ پھیکا پڑتا ہے اور وہ ہے سیاسی بحران کا موسم۔

https://p.dw.com/p/3kqho
DW Urdu Blogerin Tahira Syed
تصویر: Privat

اس بحران کی زد میں آ کر کوئی جئے یا مرے، کسی کا برا ہو یا بھلا، سیاسی مفادات کے آگے سب ہیچ ہے۔ پی ڈی ایم نے حالیہ پے در پے جلسوں کی صورت میں، جو سیاسی حملے کیے اس کے نتیجے میں، جہاں ان کے سپورٹرز کے درمیان ایک بجلی سی دوڑ گئی، وہیں ملکی اداروں کے لیے ایک امتحان بھی کھڑا ہو گیا۔

 پی ڈی ایم کے جلسوں میں مقررین کی تقریریں سن کر مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسا کہ عمران خان اور اداروں کے خلاف طبل جنگ بجایا جا رہا ہو۔ اس سارے منظر نامے پر سب کا دھیان سیاسی اکھاڑے میں موجود پارٹیوں کے درمیان ہونے والی جنگ پر ہی تھا جبکہ ایک اور سمت سے کورونا وائرس بھی طبل جنگ بجا رہا تھا، جس کی آواز پر کوئی بھی کان دھرنے کو تیار نظر نہیں آتا تھا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ عوام نے ان جلسوں میں بھرپور شرکت کی اور پی ٹی ایم انہیں کامیاب جلسے بھی قرار دے سکتی ہے مگر اس سارے عمل میں عوام کو، جس خطرے سے دوچار کیا گیا، انتہائی افسوس ناک ہے۔

 یہ تو ناممکنات میں سے ہے کہ کسی جگہ پر اتنا بڑا عوامی اجتماع ہو اور وہاں ایس او پیز کا پوری طرح سے خیال رکھا جا سکے۔ عوامی اجتماع بھی ایسا کہ جہاں پر نعرے اور سیاسی گیتوں پر رقص کا ماحول ہو تو پھر سماجی فاصلہ رکھنا ناممکن سی بات ہے۔

پھر یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ اسٹیج پر موجود اکثریت نے خود فیس ماسک کا استعمال نہیں کیا ہوا تھا تو عوام سے یہ توقع کیسے رکھی جاسکتی ہے کہ وہ ایس او پیز کی پابندی کر سکیں گے۔ کیونکہ ان کے لیے رول ماڈل ان کے لیڈرز ہی ہوتے ہیں اور عوام ان کے ہر صحیح غلط فیصلے اور عمل پر لبیک کہتے ہوئے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ان کے پیچھے چلتے ہیں۔

 لیکن افسوس ہے ایسے لوگوں پر کہ جنہوں نے عوام کی محبتوں کا صلہ دینے کے لیے کبھی ایک لمحہ بھی نہیں سوچا ہو گا۔ سیاسی میدان کی یہ دیوقامت ہستیاں عوام کو کچھ اور نہیں دے سکتیں تو کم از کم ایک اچھا رول ماڈل بن کے تو دکھا سکتی ہیں۔

 ان جلسوں میں وہ لوگ بھی ایس او پیز کو اپنے پاوں تلے روندتے نظر آئے، جو کہ ہاتھ جوڑ جوڑ کر عوام کو کورونا وائرس کے باعث گھروں پر رہنے کی تلقین کرتے نظر آتے تھے اور اس وباء سے متعلق اپنے اقدامات کو فخریہ بیان کرتے تھے لیکن جب بات اپنے سیاسی مفادات کی آئی تو ان تمام اقدامات کو پس پشت ڈال دیا گیا۔

رسک کی بات کی جائے تو پی ڈی ایم کے کوئٹہ جلسے سے پہلے سکیورٹی ایجنسیز نے اپنی رپورٹ میں عوامی اجتماع کی صورت میں کسی بھی ممکنہ خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی۔ لیکن حزب اختلاف کی جماعتوں نے اس پر کان نہ دھرا کہ یہ باتیں صرف ان کے جلسے کو روکنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔ ممکن ہے یہ کسی حد تک ٹھیک بھی ہو لیکن اس پر شہلا رضا صاحبہ کا ایک ٹویٹ پیغام بھی نظر سے گزرا، جس میں انہوں نے کوئٹہ کے لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ ''شکر ہے کہ لوگوں نے کسی سکیورٹی ایجنسی سے زیادہ اپنے رب پر اعتماد کیا کہ جس وقت موت لکھ دی گئی ہے اسی وقت آئے گی۔‘‘

 شہلا رضا صاحبہ کے اس موقف کو پڑھ کر ایک سوال ذہن میں یہ پیدا ہوا کہ یہ بات درست کہ موت تو اپنے وقت پر ہی آنی ہے لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ وہ وقت سیاسی نمائندوں کے نعروں پر رقص کرتے ہوئے ہی آئے؟ اور اگر ایسا ہی موت کے وقت پر یقین ہے تو پھر اپنے ساتھ چلنے والے سکیورٹی گارڈز کا ہجوم چہ معنی دارد۔

 پولیس، ایمبولینس، روڈ بلاک، ٹریفک بلاک، موبائل سگنل بند تو کیا خود انہیں اس بات پر اعتماد نہیں کہ موت اپنے وقت پر آنی ہے؟ یا پھر یہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی زندگی کسی عام آدمی کی زندگی سے زیادہ اہم ہے۔

اس دو طرفہ تماشے میں وفاقی حکومت بھی پیچھے نہ رہی اور ٹائیگر فورس کو جمع کر کے گویا کرونا وائرس کی دوسری لہر کو دعوت نامہ بھیجا گیا۔ جبکہ ایک طرف تو خان صاحب خود بھی قوم کو نصیحت کرتے نظر آ رہے ہیں کہ کرونا وائرس کی دوسری لہر کا خطرہ موجود ہے لہذہ اس وباء کی روک تھام کے لیے کیے گئے اقدامات پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔

 تو دوسری جانب ٹائیگر فورس کا جم غفیر اکٹھا کیا گیا، صرف یہ بتانے کے لیے کہ پی ٹی آئی آج بھی نوجوانوں میں اسی قدر مقبول ہے، جتنی الیکشن سے پہلے تھی۔ جب صوبائی اور وفاقی حکومتیں ہی اپنے سیاسی سرکس میں عوام کی صحت سے کھیلتی نظر آرہی ہیں تو ہم اس بات پر کیسے یقین کر لیں کہ یہ نمائندے دیگر ملکی امور میں اپنے ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر عوام کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہیں۔

اپنا بیانیہ عوام تک پہنچانا اگر اسی قدر ضروری تھا تو ٹیکنالوجی کا سہارا بھی لیا جا سکتا تھا۔ ویڈیو لنک کے ذریعے عوام سے بات کی جاسکتی تھی، نعرے بھی لگوائے جا سکتے تھے۔ حکومت کی ٹائیگر فورس کو سامنے بٹھا کر حزب اختلاف پر تنقید آن لائن بھی ممکن تھی۔ گو کہ پاکستان کے کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے کیے گئے اقدامات کو دنیا بھر میں سراہا گیا ہے لیکن یہ بات ہم سب اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اس ملک میں کووڈ انیس کے حوالے سے طے شدہ ایس او پیز کی جس طرح سے دھجیاں اڑائی گئی ہیں شاید ہی دنیا کی کسی اور قوم نے اتنی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہو۔

اس کے باوجود دنیا کے دوسرے ممالک سے تقابلی جائزہ لیا جائے تو ہم اس وباء کی تباہ کاریوں سے نسبتاً محفوظ نظر آتے ہیں، جس کی وجوہات شاید کبھی سامنے آ پائیں۔ لیکن ہمارے سیاسی رہنماؤں کے غیر ذمہ دارانہ رویے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ان کی نظر میں عوام کی جان و مال کی ذرہ بھر بھی اہمیت نہیں۔

کرونا وائرس کے دوران لاک ڈاؤن میں اگر کسی کا نقصان ہوا تو وہ صرف اس ملک کی غریب عوام ہی تھے، اگر کسی کی زندگی مزید اجیرن ہوئی تو وہ غریب عوام ہی تھے، اگر کسی کے گھر کا چولہا بجھا تو وہ غریب کا چولہا ہی تھا۔ جیسے بارش یا طوفان کے موقع پر اگر چھت گرتی ہے تو غریب کی ہی چھت ہوتی ہے۔

سوال صرف اتنا ہے کہ اس سیاسی سرکس میں غریب عوام کے لیے کون سا فائدہ چھپا ہے؟ حکومت کی مس مینجمنٹ کے نتیجے میں اگر آج غریب مہنگا آٹا خریدنے پر مجبور ہے تو سیاسی رہنماؤں کے اداروں سے تصادم کی صورت میں مزید نقصان اٹھانے والی بھی یہ غریب عوام ہی ہو گی، جن کے انتظامی امور کو اللہ پر چھوڑ دیا گیا ہے۔