پاکستان: افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے انتظامات مکمل
11 اکتوبر 2023پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کی ملک واپسی کے لیے تمام انتظامات کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔ حکام کہتے ہیں مقررہ ڈیڈلائن ختم ہونے کے بعد غیرقانونی مہاجرین کے خلاف ضابطے کی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف حصوں میں پولیس گزشتہ ایک ہفتے کے دوران چار سو سے زائد غیرقانونی افغان مہاجرین کو گرفتار کر چکی ہے۔ ان مہاجرین کے خلاف فارن ایکٹ کے تحت کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ دوسری جانب پاکستان سے زبردستی بے دخلی کے معاملے پر افغان تارکین وطن شدید تشویش کا شکار ہیں۔ افغان مہاجرین کا کہنا ہے کہ عجلت میں کیے گئے پاکستانی حکومتی فیصلے سے ان کے بنیادی انسانی حقوق بری طرح متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
کوئٹہ میں بدھ دس اکتوبر کو نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کی زیر صدارت ہونے والے ایپیکس کمیٹی کے 14 ویں اجلاس میں نیشنل ایکشن پلان، مہاجرین کی ملک واپسی کی صورتحال اور دیگر اہم امور کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں بری فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر سمیت دیگر اعلیٰ سول اور فوجی حکام نے بھی شرکت کی۔
غیرمعمولی فیصلے
کوئٹہ میں تعینات ایک سینئیر سکیورٹی اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ملک کی داخلی سلامتی کی صورتحال کی بہتری کے لیے غیرمعمولی فیصلے کیے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا ، "پاک افغان سرحد کی سکیورٹی پاکستان کی داخلی سلامتی کے لیے بہت اہم ہے۔سرحدی سکیورٹی کے لیے وضع کیے گئے پلان کا بنیادی مقصد یہ یقینی بنانا ہےکہ پاک افغان سرحد پر ہرقسم کی غیرقانونی نقل وحمل مستقل بنیادوں پرختم ہوسکے۔حالیہ ایپیکس کمیٹی کے اجلاس میں عسکریت پسندی سے نمٹنے کے لیے ترمیم شدہ نیشنل ایکشن پلان پر سختی سے عمل درآمد یقینی بنانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔"
سکیورٹی اہلکار نے دعویٰ کیا کہ بلوچستان سمیت ملک بھر میں دہشت گردی کے اکثر حالیہ واقعات میں افغان مہاجرین ملوث پائے گئے ہیں۔ان کے بقول، "افغان سرزمین کے پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کے مستند شواہد سکیورٹی ایجنسیوں کے پاس موجود ہیں ۔ ان شواہد سے افغان حکام کو بھی اگاہ کیا گیا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ افغانستان کی جانب سے بھی سرحدی سکیورٹی کے معاملات میں سنجیدگی دکھائی جائے۔"
افغان مہاجرین کی ملک بدری پر ملا جلا رد عمل
افغان امور کے ماہر اور سابق صوبائی وزیر کیپٹن (ر) عبدالخالق اچکزئی کہتے ہیں کہ علاقائی سلامتی کے معاملات میں سنجیدہ اور دور اندیشی پر مبنی اقدمات وقت کی اولین ضرورت ہیں ۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا،" پشتون قبائل چاہے وہ سرحد کے اس طرف ہوں یا افغانستان کی حدود میں علاقائی سلامتی کے لیے ان کا کردار ہمیشہ شاندار اور کلیدی رہا ہے ۔ میرے خیال میں پاکستان اگر قانونی طور پر اپنی سکیورٹی کے لیے کوئی حکمت عملی مرتب کر رہا ہے تو اس پر کسی کو ئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ اکثر اوقات غلط فہمیوں کی وجہ سے دوریاں پیدا ہوتی ہیں۔ پشتون قبائل چاہتے ہیں کہ سرحدی علاقوں میں امن قائم ہو۔ جب بھی بدامنی پیدا ہوتی ہے تو اثرات سب سے زیادہ قبائلی علاقوں پر پڑتے ہیں۔"
خالق اچکزئی کا کہنا تھا کہ افغانستان سے غیرملکی افواج کے انخلاء کے باعث قیام امن کی صورتحال مسلسل خراب ہوتی جا رہی ہے ۔
انہوں نے مذید کہا، " اس وقت پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں سردمہری کی جو کیفیت ہے اس پر ماضی کے اثرات بھی نمایاں ہیں۔ اگر زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اجتماعی پالیسیاں تضادات کا شکار رہی ہیں۔ اب دو طرفہ تعلقات کی بہتری اور علاقائی سلامتی پر خصوصی توجہ دی جائے۔"
اسلام آباد میں مقیم دفاعی امور کے تجزیہ کار ڈاکٹر راشد احمد کہتے ہیں کہ پاکستان سے غیرقانونی افغان مہاجرین کی اپنے ملک واپسی افغان سرزمین کی دوبارہ آبادکاری کے لیے بہت اہم ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "دنیا کے کسی ملک میں ایمیگریشن کے قوانین کے بغیر لوگوں کو داخلے کی اجازت نہیں ملتی۔ اس وقت افغانستان کے حدود میں بھی باہر سے داخل ہونے والے شہریوں پر وہاں کے ایمیگریشن قوانین کا بھر پور اطلاق کیا جاتا ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے، جہاں لاکھوں افغان مہاجرین کئی دہائیوں سے غیرقانونی طور پر مقیم ہیں ۔ اگر افغانستان کے حالات سازگار ہیں تو اس ضمن میں زمینی حقائق کے مطابق حکومتی پالیسی کا از سرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔"
ڈاکٹر راشد کا کہنا تھا کہ افغان مہاجرین کی ملک واپسی کے معاملے پر جو خدشات سامنے آرہے ہیں انہیں سفارتی سطح پر دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ افغان مہاجرین کے خدشات بھی دور کیے جاسکیں ۔
افغان مہاجرین کے خدشات
افغانستان کے جنوبی صوبے قندہار سے تعلق رکھنے والے 55 سالہ عبدالغیاث گزشتہ کئ سالوں سے کوئٹہ میں اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ خودساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ افغان مہاجرین کی ملک واپسی کے فیصلے سے پریشان غیاث پوچھتے ہیں کہ اگر انہیں زبردستی واپس اس جنگ زدہ ملک بھیجا گیا، تو ان کی جانوں کو تحفظ کون دے گا؟
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "ہم نے انتہائی مجبوری کے عالم میں اپنے ملک کو چھوڑ کریہاں پناہ حاصل کی ہے۔ اس وقت وہاں جو جنگی کیفیت ہے اس سے کون آگاہ نہیں۔ موجودہ افغان انتظامیہ چن چن کر لوگوں سے انتقام لے رہی ہے۔ جس ملک میں باقاعدہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم کی گئی حکومت کی کوئی بنیاد نہ ہو، وہاں اس صورتحال میں ہم کس طرح واپس لوٹ سکتے ہیں۔ ہمیں پاکستانی حکومتی اعلان کی وجہ سے شدید پریشانی لاحق ہے۔"
غیاث کا کہنا تھا کہ بے سروسامانی کے عالم میں افغانستان چھوڑ کر پاکستان آنے والے مہاجرین انصاف کے منتظر ہیں، انہیں امن دشمن عناصر کے منفی ایجنڈے کی وجہ سے ازیت کا شکار نہ بنایا جائے ۔
انہوں نے کہا، ''ہم ان عناصر کی وجہ سے پاکستان میں حکومتی کارروائیوں کا شکار ہو رہے ہیں، جو کہ اپنے مفادات کے لیے یہاں امن نہیں چاہتے، جو لوگ دونوں ممالک کے درمیان اپنے مفادات کے لیے غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے تاکہ مظلوم افغان مہاجرین کی مشکلات میں مذید اضافہ نہ ہو۔"