پاکستان: فرسودہ روایات کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرتی خواتین
4 مئی 2017پاکستانی صوبے خیبرپختونخوا کے ضلع سوات کے دیہی سرسبز پہاڑی علاقوں میں اُنہی اصولوں کی عملداری ہے، جو کسی جرگے میں طے کیے جاتے ہیں۔ جرگے کی حیثیت ایک مقامی کونسل کے ساتھ ساتھ متنازعہ معاملات کا فیصلہ کرنے والی ایک عدالت کی بھی ہوتی ہے۔ یہاں روایتی طور پر صرف مرد ہی فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔
اب لیکن یہ صورتِ حال بدل رہی ہے۔ ایک مقامی مرکز میں فرش پر پچیس خواتین بیٹھی ہیں اور نان و نفقے سے متعلق معاملات پر بحث کر رہی ہیں۔
خواتین کا جرگہ فیصلوں میں شرکت کا مطالبہ کر رہا ہے
اس گروپ کی قیادت تبسم عدنان کے ہاتھوں میں ہے۔ سن 2013ء میں اُنہوں نے پاکستان میں صنفی تقسیم کے روایتی ڈھانچے کو تہ و بالا کرتے ہوئے خواتین کے ایک جرگے کی بنیاد رکھی تھی۔ یہ وہی علاقہ ہے، جہاں کبھی طالبان کا مکمل کنٹرول ہوا کرتا تھا۔ اسی علاقے میں 2012ء میں پندرہ سالہ طالبہ ملالہ یوسف زئی کو اس لیے سر میں گولی ماری گئی تھی کیونکہ وہ لڑکیوں کے اسکول جانے کے حق کی وکالت کر رہی تھی۔
تبسم عدنان کے دل میں خواتین کا جرگہ قائم کرنے کا خیال اُس وقت آیا، جب اُنہوں نے ایک کیس میں ایک خاتون کے ساتھ نا انصافی ہوتے دیکھی:’’ایک نوجوان لڑکی پر تیزاب پھینکا گیا تھا۔ جب یہ کیس جرگے کے سامنے لایا گیا تو اُس لڑکی کو مکمل مدد کا یقین تو دلایا گیا لیکن درحقیقت کسی قسم کی مدد نہیں کی گئی۔ مجرم سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوئی۔ لڑکی چل بسی۔‘‘
روایتی ڈھانچے قائم و دائم ہیں
سن 2012ء میں پاکستانی سپریم کورٹ نے جرگوں کو ممنوع قرار دے دیا تھا لیکن حکومتی رِٹ کے دائرے سے باہر دور دراز واقع علاقوں میں اس عدالتی فیصلے کے نتیجے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
ضلع سوات کا بڑا جرگہ اب بھی مردوں پر مشتمل ہے۔ یہ جرگہ آبرو ریزی اور قتل کے معاملات میں بلایا جاتا ہے۔ اس کے برعکس خواتین کا پچیس رُکنی جرگہ ایسے کیسز سے نمٹتا ہے، جن کا تعلق گھریلو تشدد، وراثتی معاملات اور صحت کے مسائل سے ہوتا ہے۔ یہاں کم سنی کی شادی پر بھی بات ہوتی ہے۔
پاکستان میں کم سنی کی شادیاں کوئی غیر معمولی بات نہیں ہیں۔ کئی علاقوں میں وَنی کی رسم موجود ہے، جس میں خاندان کے کسی مرد کی طرف سے سر زد ہونے والے جرم کی تلافی کے طور پر کسی نوعمر لڑکی کی شادی متاثرہ فریق کے خاندان کے کسی مرد کے ساتھ کر دی جاتی ہے۔
پاکستان میں کم سنی کی شادیاں
تبسم عدنان کے لیے یہ مسئلہ اس وجہ سے بھی اہم ہے کیونکہ خود اُن کی بھی شادی چَودہ سال کی عمر میں ایک بیس سال بڑے مرد کے ساتھ کر دی گئی تھی۔ یہ شادی بیس سال تک قائم رہی۔ اس دوران تبسم عدنان منشیات کی عادی ہو گئی اور بالآخر طلاق حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی:’’میرے قریبی عزیزوں نے میری کوئی مدد نہیں کی لیکن میں اپنے حق کے لیے خود کھڑی ہوئی اور میں نے مسلسل ناخوش رہنے کی حالت ختم کر دی۔‘‘
اگرچہ طالبان کے علاقے میں خواتین کے جرگوں کی اہمیت بڑھ رہی ہے لیکن قدامت پسند حلقے ان جرگوں کو بدستور غیر ضروری خیال کرتے ہیں۔ ضلع سوات کے ایک رہائشی محبوب علی نے بتایا:’’ہمارے معاشرے میں خواتین کے کسی جرگے کا کیا کام؟ یہ جعلی ہیں، صرف پیسہ بنانے کے لیے قائم کیے گئے ہیں۔ پاکستان میں این جی اوز ہمیشہ اس طرح کے کام کرتی ہیں، جو بعد میں کسی کو یاد بھی نہیں رہتے۔‘‘
محبوب علی کے برعکس مردوں کے ایک جرگے کے ایک سابق سربراہ انعام الرحمان کانجو خواتین کے جرگوں کی کامیابی کی دعا کرتے ہیں:’’کبھی کبھی ہم اُنہیں اپنے ہاں آنے کی دعوت دیتے ہیں تاکہ وہ دیکھ سکیں کہ ایک جرگہ کیسے کام کرتا ہے۔ ہمیں اس طرح کے جرگوں سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘‘
خواتین کے جرگے کی ابتدائی کامیابیاں
ایک شخص نے ایک خاتون کے گھر میں گھُس کر لوٹ مار بھی کی اور اُس کے سارے دانت بھی توڑ ڈالے۔ تب تبسم عدنان کے جرگے کی کوششوں سے اُس مجرم کو چار سال کی سزائے قید دی گئی۔ یہ جرگہ پولیس اور عدلیہ میں ایسے کیسوں کو نمایاں کرنا چاہتا ہے، جن میں خواتین کو تشدد اور دھمکیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہو۔
قتل کی دھمکییاں ملنے کے بعد آج کل خواتین کے جرگے کے اجلاس خفیہ طور پر منعقد کیے جا رہے ہیں۔ واضح رہے کہ ’یورپی جرنلزم سینٹر‘ اپنے پروگرام ’اِنوویشن ان ڈیویلپمنٹ رپورٹنگ‘ کے ذریعے اس جرگے کو مالی امداد فراہم کر رہا ہے۔