پاکستان قبائلی علاقہ جات میں اسلحہ سازی کی صنعت
2 فروری 2011شمالی پاکستان میں اسلحہ سازی کی صنعت نے اس وقت ذور پکڑا، جب سوویت فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں۔ اس وقت روسی اسلحہ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں سرِ عام فروخت ہونے لگا۔ یہ اسلحہ اپنی ساخت اور کارکردگی میں مقامی پاکستانی اسلحے سے کہیں بہتر تھا لہٰذا اس نے پاکستانی اسلحے کی مانگ کو بڑی حد تک متاثر کیا۔ ساتھ ہی اس صنعت کوستمبر دو ہزار گیارہ کے بعد ایک اور دھچکہ لگا۔
پشاور میں موجود ڈوئچے ویلے کے نمائندے فرید اللہ خان کا کہنا ہے کہ انیس سو اسی کی دہائی میں مقامی اسلحہ سازی کو زبردست دھچکہ لگا۔'انیس سو اناسی کے بعد روسی اسلحہ غیر قانونی طریقے سے افغانستان کے ذریعے پاکستان میں داخل ہونے لگا اور مقامی سطح پر تیّار کردہ پاکستانی اسلحہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکا۔ رہی سہی کسر ستمبر دو ہزار گیارہ کے بعد پوری ہو گئی، جب پاکستانی حکومت نے طالبان کے خلاف عالمی جنگ میں ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ بین الاقوامی ہتھیار بڑی تعداد میں اور باآسانی پاکستان میں خریدے اور بیچے جانے لگے۔ اس باعث مقامی سطح پر اسلحہ سازی کا کام بالکل ٹھپ ہو کے رہ گیا‘۔
درّہ آدم خیل کا علاقہ چھوٹے پیمانے پر اسلحہ بنانے کے حوالے سے مشہور ہے۔ یہاں زیادہ تر بندوقیں اور دیگر اسلحہ گھروں میں بنتا ہے۔ اسلحہ ساتھ رکھنے کی روایت ویسے بھی پاکستان کے قبائلی علاقوں میں خاصی پرانی ہے۔ اسے بہادری اور مردانگی کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے۔ لوگ اسلحہ اپنی حفاظت کے لیے بھی رکھتے ہیں اور حریف قبائل کے ساتھ اپنے پرانے جھگڑے نمٹانے کے لیے بھی۔ عموماً شادی بیاہ یا دیگر تقریبات کے موقع پر بھی لوگ ہوائی فائرنگ کر کے اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔
ان ہتھیاروں کے قانونی یا غیر قانونی ہونے کا معاملہ خاصا پیچیدہ ہے کیوں کہ پاکستانی حکومت کی رِٹ ویسے بھی ان علاقوں میں خاصی کمزور ہے۔ عام طور پر اسلحہ رکھنے اور بنانے کے لائسنس ان علاقوں کے پولیٹکل ایجنٹ دیتے ہیں۔ یہ ایجنٹ گوکہ حکومت نامزد کرتی ہے تاہم یہ خاصی حد تک خود مختار ہوتے ہیں۔ جن علاقوں میں پاکستانی حکومت کا زور چلتا ہے وہاں وہ یہ لائسنس خود جاری کرتی ہے۔
تاہم شمالی علاقوں کے روایتی طور طریقے افغانستان میں جاری طویل جنگوں کی وجہ سے بے حد متاثر ہوئے ہیں۔ حکومتِ پاکستان اکثر اسلحہ بنانے اور فروخت کرنے والوں پر چھاپے بھی مارتی ہے۔ اس کے علاوہ غیر ملکی ہتھیاروں اور مقامی کی قیمتوں میں کوئی خاص فرق بھی نہیں۔ ہتھیار خریدنے والے جدید غیر ملکی اسلحے کو کمتر مقامی اسلحے پر فوقیت دیتے ہیں۔ اس وجہ سے مقامی اسلحہ ساز متبادل ذریعہِ معاش تلاش کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
جمال آفریدی درّہ آدم خیل کے رہنے والے ہیں اورانہوں نے کچھ عرصے کے لیے ہتھیار سازی بھی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر اسلحہ ساز اپنا پیشہ بدلنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔’’ میں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں، جو ہتھیار بناتے تھے۔ بعض اب ٹیکسی چلاتے ہیں یا انہوں نے کوئی دکان کھول لی ہے۔ جن کو کوئی متبادل کام نہ مل سکا یا جن کے پاس کوئی دوسرا ہنرنہ تھا وہ اب بھی یہی کام کر رہے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ یہ کام اب سرکاری اسلحہ ساز فیکٹریوں کے لیے کمیشن پر کیا جا رہا ہے‘‘
پاکستانی حکومت نے بہت سے افراد کو واہ ملٹری کمپلیکس اور دیگر سرکاری اسلحہ ساز فیکٹریوں میں نوکریاں دے دی ہیں، جہاں افواج پاکستان اور دیگر سکیورٹی فورسز کے لیے ہتھیار تیّار کیے جاتے ہیں۔ بے روزگاری کی وجہ سے بہت سے اسلحہ سازوں کہ طالبان عسکریت پسندوں نے بھی بھرتی کرلیا ہے۔ تاہم فرید اللہ خان کا کہنا ہے کہ طالبان اب بھی زیادہ تر غیر ملکی اسلحے پر ہی انحصار کرتے ہیں۔
ایک اور توّجہ طلب بات یہ ہے کہ پاکستان اسلحہ ساز روسی اور امریکی ساخت کے اسلحے کی نقل بھی تیّار کرتے ہیں اور بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ اس کام میں بہت مہارت رکھتے ہیں۔ غیر ملکی ہتھیاروں کی نقل اور اصلی ہتھیاروں میں تفریق کرنا انتہائی مشکل کام ہوتا ہے۔
جمال آفریدی کہتے ہیں کہ اسلحہ سازی کا فن پشتونوں کے خون میں ہے۔ جمال آفریدی کا مطالبہ ہے کہ حکومت اسلحہ سازی کے کام کو قانونی تحفّظ فراہم کرے اور غیر قانونی اسلحے کی ملک میں درآمد کو روکنے کے لیے اقدامات اٹھائے۔’’بے روزگاری جرائم کی بنیاد ہے۔ حکومت کو چاہیےکہ وہ چھوٹے اسلحہ سازوں کو لائسنس جاری کرے تاکہ وہ قانونی طور پر پیسے کما سکیں اور حکومت بھی اس مد میں ٹیکس کی رقم حاصل کر سکے۔ مغربی ملکوں میں بھی اسلحہ بنایا اور بیچا جاتا ہے تاہم وہاں حکومتیں اس بات کا حساب رکھتی ہیں کہ کون اسلحہ بیچ اور خرید رہا ہے‘‘
شمالی علاقوں میں اب آپ کو دنیا بھر کا اسلحہ باآسانی مل سکتا ہے۔ ایسے ماحول میں مقامی اسلحے کی کھپت آخر کہاں ہو؟
رپورٹ: شامل شمس
ادارت: عدنان اسحاق