پاکستان قطر کے ساتھ اربوں کا گیس معاہدہ کرنے کے لیے تیار
9 فروری 2016پاکستان کو گزشتہ کئی برسوں سے توانائی کے بحران کا سامنا ہے۔ بجلی کی قلت نے نہ صرف گھریلو صارفین بلکہ ملکی معیشت کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ مسئلے کا حل مزید گیس کی فراہمی ہے کیونکہ پاکستان اس ذریعے سے اپنی ضرورت کی پچاس فیصد سے زائد توانائی حاصل کرتا ہے۔ پاکستان کی مقامی پیداوار اس قابل نہیں کہ وہ ملکی ضروریات کو پورا کر سکے اور یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد حکومت مسئلے کے جلد از جلد حل کے لیے قطر کے ساتھ پندرہ بلین ڈالر مالیت کا گیس معاہدہ کرنا چاہتی ہے۔
اس سلسلے میں پاکستانی وزیراعظم نواز شریف بدھ کے روز دو روزہ دورے پر دوحہ پہنچ رہے ہیں۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق کئی دیگر معاہدوں کے ساتھ ساتھ قطر سے مائع قدرتی گیس (ایل این جی) خریدنے کا بھی معاہدہ طے پا جائے گا۔ پاکستانی وزیر برائے پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی کے مطابق اس معاہدے کے تحت پاکستان آئندہ پندرہ برسوں کے لیے قطر سے سستی گیس خریدے گا، ’’یہ پاکستانی تاریخ کا وہ پہلا معاہدہ ہے، جس کے تحت پہلے سال کے دوران ایک عشاریہ پانچ ملین ٹن مائع گیس درآمد کی جائے گی اور دوسرے برس اس کا حجم سالانہ 3.5 ملین ٹن تک بڑھا دیا جائے گا۔‘‘
شاہد خاقان عباسی کے مطابق پاکستان آئندہ پندرہ برسوں کے لیے یومیہ چار بلین کیوبک فٹ قدرتی گیس نکالنے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ اس کی موجودہ ضرورت چھ بلین کیوبک فٹ ہے۔
تاہم پاکستان کے اس وزیر نے یہ بتانے سے انکار کیا کہ قطر سے یہ گیس کن نرخوں پر خریدی جا رہی ہے۔ ان کہنا تھا کہ گیس کے نرخ بتانا ’’معاہدے کی خلاف ورزی‘‘ ہوگی۔ توانائی کے شعبے کے ماہر گُل فراز احمد کا جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ قطر کے ساتھ معاہدہ ایک اہم پش رفت ہے اور اس طرح متبادل توانائیوں کے مقابلے میں بہتر اور کم وقت میں ضروریات کو پورا کیا جا سکتا ہے، ’’یہ معاہدہ ایک گیم چینجر ثابت ہوگا اور اس سے نہ صرف گھریلو صارفین بلکہ صنعتی ضروریات کو بھی پورا کیا جا سکے گا۔‘‘
خاقان عباسی کے بعقول اس معاہدے کا سب سے بنیادی نتیجہ یہ نکلے گا کہ سن 2017 کے اواخر تک بجلی کے بحران پر زیادہ تر قابو پا لیا جائے گا۔ درآمد کی جانے والی گیس سے تقریباﹰ چار ہزار چھ سو میگا واٹ اضافی بجلی پیدا کی جا سکے گی۔
تاہم گل فراز احمد کا کہنا تھا کہ قطر کے ساتھ معاہدہ سے پاکستان کے توانائی کے تمام مسائل حل نہیں ہوں گے کیونکہ اس کے ذریعے ملک میں گیس کے صرف پچیس فیصد خسارے کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب عباسی کا کہنا تھا کہ اس سے راستہ ہموار ہوگا لیکن اس کے بعد بھی پرائیویٹ سیکٹر اور روس ایسے ممالک سے معاہدے کیے جا سکتے ہیں۔