1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: لاپتہ افراد کے لواحقين حکومتی موقف کے منتظر

شکور رحيم، اسلام آباد12 جولائی 2013

پاکستانی سپریم کورٹ میں جمعے کے روز لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ فوج کے پاس کسی کو اغوا کرنے يا حبس بے جا میں رکھنے کا قانونی اختیار نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/196r1
تصویر: picture-alliance/dpa

جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس اعجاز افضل پر مشتمل دو رکنی بنچ نے جمعے کے روز ایک لاپتہ شخص تاسف علی عرف دانش کی اہلیہ عابدہ ملک کی درخواست کی سماعت کی۔ عابدہ ملک کے مطابق ان کے شوہر نومبر 2012ء کو راولپنڈی سے لاپتہ ہوئے تھے۔ اس کے بعد ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی) کے میجر حیدر نامی شخص نے بتایا تھا کہ ان کے شوہر ایم آئی کی تحویل میں ہیں اور جلد ہی گھر پہنچ جائیں گے۔ راولپنڈی پولیس نے جب عدالتی حکم پر میجر حیدر سے پوچھ گچھ کی کوشش کی تو انہیں ایسا نہیں کرنے دیا گیا۔ اس دوران ایم آئی نے اپنے وکیل ابراہیم ستی کے ذریعے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں میجر حیدر نامی کسی افسر کی اپنے ہاں تعیناتی سے انکار کیا۔ ایم آئی نے اپنے جواب میں یہ بھی کہا کہ اس طرح کے معاملات میں مداخلت عدالتی دائرہ کار میں نہیں آتی۔ ابراہیم ستی کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ 1952ء کے تحت فوجیوں کے کسی بھی طرح کے جرم کا مقدمہ سول عدالت میں نہیں چل سکتا۔ ان کے بقول آرمی ایکٹ کو انسانی حقوق کے نام پر بھی کالعدم قرار نہیں دیا جاسکتا۔

سابق فوجی صدر جنرل پر ویز مشرف کے ایک وکیل قمر افضل کا کہنا ہے کہ آئین کی رو سے حاضر سروس فوجیوں سے پولیس نہ تفتیش کر سکتی ہے اور نہ ہی ان پر عام عدالت میں مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔ انہون نے کہا، ’’آرمی کے ساتھ ایک ریاستی ادارے کی حيثیت سے الگ سلوک کیا جاتا ہے۔ اس پر آرمی ایکٹ لگتا ہے۔ دوسرا آرمی کا کوئی بھی اہلکار ہائی کورٹ میں آرٹیکل 199 کے تحت نہیں آسکتا۔ آرمی کو اس سارے نظام سے علیحدہ رکھا گیا ہے۔ آرمی کے کسی بھی اہلکار کا ٹرائل عام عدالت میں نہیں ہو سکتا۔‘‘

تاہم اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ اگر کوئی ادارہ اپنے قانونی اختیارات سے تجاوز کرے تو عدالت اس کے خلاف ایکشن لے سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی فوجی اہلکار کا بدنیتی پر مبنی اور اختیارات سے متجاوز اقدام اعلی عدلیہ میں زیر سماعت آسکتا ہے۔ اس پر عدالت نے ان سے پوچھا کہ یہ ان کی ذاتی رائے ہے یا حکومتی مؤقف ہے۔‘‘ جواب ميں اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ یہ ان کی ذاتی رائے ہے، جس کے بعد عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو آئندہ سماعت یعنی سولہ جولائی کو حکومتی مؤقف سے آگاہ کرنے کی ہدايت کی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق حکومت نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے ایک کمشن قائم کیا تھا
پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق حکومت نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے ایک کمشن قائم کیا تھاتصویر: Getty Images

دوسری جانب سپریم کورٹ کے وکیل اکرام چوہدری کا کہنا ہے کہ اعلی عدلیہ کو اختیار حاصل ہے کہ وہ انسانی حقوق سے متعلق کسی بھی معاملے کا نوٹس لے سکتی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’بنیادی طور پر یہ سب ادارے فوج سمیت سول انتظامیہ کے تابع ہیں اور پولیس کے قوانین کے تحت انہيں مکمل اختیار ہے کہ وہ ان سے تحقيقات کريں۔‘‘

لاپتہ افراد کے حوالے سے بات کرتے ہوئے نو سال قبل لاپتہ ہونے والے مسعود جنجوعہ کی اہلیہ اور ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چیئر پرسن آمنہ مسعود جنجوعہ کا کہنا ہے کہ حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود لاپتہ افراد کے لواحقین کی مشکلات میں کوئی کمی نہیں آئی۔ انہوں نے کہا، ’’ہم نے خطوط بھی لکھے، پیغامات بھی بھجوائے اور جو کچھ بھی ہو سکتا ہے وہ کیا۔ سپریم کورٹ میں روزانہ کی بنیاد پر لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت ہو رہی ہے لیکن جو عنصر غائب نظر آتا ہے وہ یہی ہے کہ حکومت کا ابھی تک کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا۔‘‘

واضح رہے کہ 2001ء میں دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہونے کے بعد سینکڑوں پاکستانی شہریوں کے لاپتہ ہونے کی شکایات سامنے آئیں۔ ان افراد کے لواحقین کا الزام ہے کہ خفيہ ایجنیساں ان جبری گمشدگیوں کی ذمہ دار ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق حکومت نے جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے ایک کمشن بھی قائم کیا تھا جو اب بھی کام کر رہا ہے لیکن لاپتہ افراد کے لواحقین اس کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہيں۔ موجودہ حکومت نے بھی لاپتہ افراد کی بازیابی کے ليے ایک ٹاسک فورس تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے تاہم ابھی تک اس کی تشکیل عمل میں نہیں آسکی۔