پاکستان: ماحولیاتی تبدیلیوں کے مرچوں کی پیداوار پر اثرات
پاکستان مرچیں پیدا کرنے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے لیکن موسمیاتی تبدیلیاں روایتی فصلوں کی کاشت کو بھی متاثر کر رہی ہیں۔ کُنری کو مرچوں کی پیداوار کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ وہاں صورتحال کیسی ہے؟ جانیے اس پکچر گیلری میں!
یہ باپ اور بیٹا مرچوں کے کھیتوں میں کام کرتے ہیں
رواں برس انتہائی موسمی حالات نے پاکستانی کسانوں کے لیے بہت بڑی مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ یہ بات 40 سالہ کسان لیمن راج نے بھی محسوس کی ہے۔
محنت ضائع ہوئی
لیمن راج کہتے ہیں، ’’پہلے پودے گرمی سے بری طرح متاثر ہوئے، پھر بارشیں ہوئیں اور موسم بالکل بدل گیا۔ ساری مرچیں گل سڑ گئی ہیں۔‘‘
پہلے شدید گرمی پھر سیلاب
پاکستان میں بہت سے لوگوں کا انحصار زراعت پر ہے۔ ایک طرف تباہ کن گرمی فصلوں کو متاثر کر رہی ہے تو دوسری طرف شدید بارشوں نے تباہی مچائی ہوئی ہے۔ راج بتاتے ہیں، ’’جب میں چھوٹا تھا تو کبھی بھی اتنی شدید گرمی نہیں تھی۔ ہماری پیداوار بھرپور ہوتی تھی۔ اب پیداوار مسلسل سکڑتی جا رہی ہے۔‘‘
مرچیں بچانے کے لیے کپاس کی قربانی
سیلاب آیا تو کسانوں کو بھی قربانی دینا پڑی۔ کسان فیصل گِل بتاتے ہیں، ’’ہم نے گڑھے کھود کر مرچ کے کھیتوں سے پانی کپاس کے کھیتوں کی طرف نکالا۔‘‘ اس طرح کم از کم مرچوں کی 30 فیصد فصل کو بچا لیا گیا۔ لیکن دوسری طرف کپاس کے کھیت برباد ہو گئے اور کسانوں کو بچی کچھی فصل کو آگ لگانا پڑی۔
مرچوں کی پیداوار میں پاکستان کا مقام
اندازوں کے مطابق حالیہ سیلاب سے پاکستان کو 40 ارب ڈالر کا مادی نقصان ہوا ہے۔ پاکستان مرچوں کی پیداوار کے حوالے سے دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے۔
زراعت ریڑھ کی ہڈی
یہاں سالانہ 60 ہزار ہیکٹر پر تقریباً ایک لاکھ چالیس ہزار ٹن مرچیں کاشت کی جاتی ہیں۔ پاکستان خاص طور پر موسمیاتی تبدیلیوں سے زیادہ متاثر ہے کیونکہ زراعت پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔
مارکیٹ کے لیے مرچیں خشک کرنا
مرچوں کی فروخت سے پہلے انہیں دھوپ میں خشک کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ایرڈ زون ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر عطا اللہ خان کہتے ہیں، ’’یہ مسلسل تیسرا سال ہے کہ مرچوں کی فصل متاثر ہو رہی ہے۔‘‘
پاکستان کے لیے بڑا چیلنج
عطا اللہ خان کہتے ہیں کہ موسمیاتی بیماریاں بھی اس فصل کی پیداوار کو تباہ کر رہی ہیں اور یہ پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
پاکستان میں مرچوں کا گڑھ
مرچیں چننے اور سکھانے کے بعد انہیں بوریوں میں بند کر کے کُنری مارکیٹ تک لایا جاتا ہے۔ صوبہ سندھ کی تحصیل کُنری کو مرچوں کا ’دارالحکومت‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں مرچوں کے پہاڑ دیکھ کر نہیں لگتا کہ ان کی پیداوار میں کمی ہوئی ہے لیکن یہ نظر کا دھوکا ہے۔
پیداوار میں کمی
نہ صرف کسان بلکہ تاجر بھی اپنے مستقبل کے حوالے سے پریشان ہیں۔ تاجر راجہ دائم کہتے ہیں، ’’گزشتہ سال اسی وقت یہاں کی مارکیٹ میں آٹھ ہزار سے 10 ہزار بوریاں تھیں۔ اس سال یہ بمشکل دو ہزار ہیں اور یہ پہلے ہفتے کا پہلا دن ہے۔