’پاکستان ميں موجود افغان مہاجرين يورپ کا رخ کر سکتے ہيں‘
19 اکتوبر 2015ڈی ڈبليو: يورپ ميں مہاجرين کے بحران کے سبب اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين سميت ديگر امدادی ايجنسيوں کو فنڈز کی کمی کا سامنا ہے۔ اس صورتحال سے پاکستان ميں امدادی سرگرمياں کس طرح متاثر ہو رہی ہيں اور بالخصوص وہاں موجود افغان مہاجرين کے ليے جاری پروگراموں پر کيا اثرات مرتب ہو رہے ہيں؟
اندريکا راٹ واٹے : يہ صورتحال ہمارے ادارے کے ليے واقعی سنگين ہے۔ اس وقت دنيا کے متعدد حصوں ميں بحران جاری ہيں جن کے حل کے ليے انسانی بنيادوں پر فوری امداد کی ضرورت ہے۔ پاکستان ميں رجسٹرڈ افغان مہاجرين کی تعداد 1.6 ملين ہے، جو دنيا کے کسی بھی ملک ميں طويل عرصے کے ليے قيام کرنے والی مہاجرين کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ ايک ايسے وقت جب ايک ادارہ انسانی بنيادوں پر امداد اور مہاجرين کے تحفظ کے اپنے مينڈيٹ کو پورا کرنے اور ساتھ ساتھ طويل عرصے کے ليے قيام کرنے والے مہاجرين سے منسلک مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش ميں ہو، فنڈز کی سنگين کمی کافی چيلنجنگ ثابت ہوتی ہے۔
ڈی ڈبليو : کيا آپ فکر مند ہيں کہ فنڈز کی قلت کے سبب پاکستان ميں موجود افغان مہاجرين کی صورتحال ميں بد تری کے نتيجے ميں يہ افغان مہاجرين يورپ کا رخ کر سکتے ہيں؟
ميں فوری طور پر تو ايسا ہوتا ہوا نہيں ديکھتا۔ البتہ اگر تعليم اور نوجوانوں کو سياسی و سماجی طور پر مضبوط بنانے سے متعلق افغان مہاجرين کے ليے جاری ہمارے اہم ترين پروگرام متاثر ہوتے ہيں، تو ايسے نوجوان جن کے پاس کوئی مواقع دستياب نہ ہوں ظاہر ہے خواہ وہ پاکستان ميں ہوں يا اپنے آبائی ملک ميں، اپنے ليے بہتر مستقبل تلاش کريں گے۔ ہاں، ہم فکر مند ہيں کہ ايسا ہو سکتا يعنی پاکستان اور خطے ميں موجود ديگر ممالک ميں موجود افغان مہاجرين يورپ کا رخ کر سکتے ہيں۔ اسی ليے ہم بالخصوص پاکستان ميں قيام پذير افغان مہاجرين کی تعليم، تربيت اور ہنر مندانہ صلاحيتوں کو فروخ دينے کی پر زور کوششيں کر رہے ہيں، تاکہ انہيں واقع يہاں ہی مہيا کيے جا سکيں اور پھر وہ واپس افغانستان جائيں نہ کہ يورپ کا رخ کريں۔
ڈی ڈبليو : کيا آپ نے اس حوالے سے اپنے خدشات سے اقوام متحدہ کی ذيلی ايجنسيوں اور حکومت پاکستان کو مطلع کيا ہے؟
جی بالکل ہم يہ کر چکے ہيں۔ ہمارے ادارے يو اين ايچ سی آر نے اعلٰی ترين سطح پر ان معاملات کو اٹھايا ہے۔ اکتوبر کی پانچ اور چھ تاريخ کو افغانستان، پاکستان اور ايران کے وزراء نے ايک ملاقات کی، جس ميں افغان صدر اشرف غنی کی شرکت بھی متوقع تھی تاہم وہ قندوز کی صورتحال کی وجہ سے شرکت نہ کر سکے۔ اس ملاقات ميں پاکستان، افغانستان اور ايران تينوں ممالک کے وزراء نے بين الاقوامی ايجنسيوں اور عالمی برادری سے اپيل کی ہے کہ اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين کی جانب سے وضح کردہ شعبوں ميں مدد کی جائے۔
ڈی ڈبليو : کيا اسلام آباد حکومت اس سلسلے ميں کوئی اقدامات کر رہی ہے کہ افغان مہاجرين کی ديگر ممالک بالخصوص يورپی ممالک ہجرت کو روکا جائے؟
پاکستانی حکومت کی نيشنل ڈيٹا بيس اينڈ رجسٹريشن اتھارٹی يا نادرا کی جانب سے سن 2007 سے افغان مہاجرين کو رجسٹريشن دستاويزات جاری کیے جا رہے ہیں۔يہ دستاويز يا کارڈ افغان پناہ گزينوں کو پاکستان ميں رہنے کی اجازت ديتا ہے۔ افغان مہاجرين کے ليے پاکستان ميں رہنے کی مدت رواں سال کے اختتام پر ختم ہونے والی ہے۔ اس حوالے سے حکومت پاکستان کی جانب سے ايک منصوبہ تيار کيا جا چکا ہے، جس کی کابينہ سے منظوری باقی ہے۔ اس کے ذريعے ان کارڈز کی مدت ميں دو سال کی توسيع کی جائے گی۔ ميں سمجھتا ہوں کہ پناہ گزينوں کی اتنی بڑی تعداد کو مہمان بنانے کے حوالے سے تمام تر تھکن، قومی سلامتی سے متعلق خدشات اور ديگر چيلنجز کے باوجود حقيقی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے يہ پاکستانی حکومت کی جانب سے ايک انتہائی مثبت قدم ہے۔ دوسری طرف ميں يہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ تاحال پاکستان ميں موجود افغان پناہ گزينوں نے يورپی ممالک کا رخ نہيں کيا۔ ميں يہ جانتا ہوں کہ اس سال يورپ پہنچنے والے کُل مہاجرين ميں قريب سترہ فيصد افغان ہيں تاہم ہمارے ادارے کے پاس اس سال پاکستان سے يورپ جانے والے افغان مہاجرين کے بارے ميں کوئی اعداد و شمار نہيں۔
ڈی ڈبليو: پاکستان ميں افغان مہاجرين کو جو کارڈ جاری کيا جاتا ہے، کيا مہاجرين اس کارڈ کے ذريعے کسی اور ملک سفر يا کسی تيسرے ملک ميں پناہ کے ليے درخواست دينے کے اہل ہوتے ہيں؟
’پروف آف رجسٹريشن‘ يا (POR) کہلانے والا يہ کارڈ انہيں پاکستان ميں افغان شہری کے طور پر رہنے کی اجازت ديتا ہے۔ ان کی شناخت بھی ’پاکستان ميں قيام پذير افغان شہريوں‘ ہی کے طور پر ہوتی ہے۔ جہاں تک سوال ہے اس کا کہ کسی تيسرے ملک ميں ان کی حيثيت کيا ہو گی، تو اس کے ليے انہيں اس ملک ميں قانونی حيثيت طے کرنے والے قوانين و طريقہ کار کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی حيثيت کا پتہ چلانا ہو گا۔
پاکستان ميں موجود افغان پناہ گزينوں کی افغانستان واپسی کی راہ ميں کيا رکاوٹيں کھڑی ہيں؟
سن 2001 سے اب تک 3.5 ملين سے زائد افغان مہاجرين UNHCR کی کی اسکیم کے تحت رضاکارانہ طور پر افغانستان واپس جا چکے ہيں۔ اگر عالمی سطح پر نظر ڈالی جائے تو پچھلی ايک دہائی ميں دنيا بھر سے قريب 5.8 ملين افغان پناہ گزين رضاکارانہ طور پر افغانستان جا چکے ہيں۔ واپس وطن لوٹنے والے پناہ گزينوں کی مانيٹرنگ سے متعلق ايک پروگرام اور افغانستان ميں موجود ہمارے ادارے کی شاخ کی جانب سے فراہم کی جانے والی معلومات کی روشنی ميں يہ کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان سے افغان مہاجرين کی وطن واپسی کے معاملے ميں ہميں چار اہم چيلنجز يا رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ افغانستان واپس جانے والوں اور ديگر ممالک ميں بسنے والے افغان پناہ گزينوں کے ليے سب سے اہم ملازمت، بنيادی سہوليات، زمين يا پراپرٹی کی دستيابی اور سلامتی کی صورتحال ہيں۔ اس سال بھی رضاکارانہ وطن واپسی کی اسکيم کے تحت پچاس ہزار افغان مہاجرين پاکستان سے اپنے آبائی ملک لوٹ چکے ہيں ليکن چيلنجز اب بھی واضح ہيں۔ اس کے علاوہ واپس لوٹنے والے شہريوں کی افغانستان ميں داخلی سطح پر کھپت کی گنجائش کافی محدود ہے، جو پہلے ہی اپنی حد کو پہنچ چکی ہے۔ اسی ليے ہم نے اسلام آباد اور کابل حکومت کے ساتھ مل کر ’سلوشن اسٹريٹيجی فار افغان رفيوجيز‘ تشکيل دی ہے۔ اس اسکيم کی مدد سے تين اہم معاملات پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے ۔ افغان مہاجرين کی رضاکارانہ وطن واپسی کو کيسے فروغ ديا جائے؟ دوسرا کافی اہم معاملہ يہ ہے کہ ان افغانوں کے ليے پائیدار بنيادوں پر دوبارہ انضمام کو کس طرح يقينی بنايا جائے۔ اس حکمت عملی ميں تيسرا نکتہ يہ ہے کہ پناہ گزينوں کی بڑی تعداد کی ميزبانی کرنے والے ممالک کی حمايت اور امداد کس طرح جاری رکھی جائے۔
ڈی ڈبليو : پاکستان ميں افغان مہاجرين قريب ساڑھے تين دہائيوں سے موجود ہيں۔ پاکستان اور عالمی نقطہ نظر سے آپ کی رائے ميں اس مسئلے کا طويل المدتی حل کيا ہے؟
تاريخی پس منظر سے ديکھا جائے تو پناہ گزين خواہ دنيا کے کسی بھی حصے ميں ہوں، اگر حالات ساز گار ہوں اور فيصلہ ان کے ہاتھوں ميں ہو، تو اکثريت اپنے آبائی ممالک جانے کی ہی خواہش مند ہوتی ہے۔ ہم نے کئی مقامات پر يہ ديکھا ہے، پاکستان ميں پچيس، تيس سال گزانے کے بعد بھی 3.8 ملين افغان پناہ گزين اپنے وطن لوٹ چکے ہيں۔ ميں سمجھتا ہوں کہ اس مسئلے کا طويل المدتی حل يہی ہے کہ افغانستان ميں منافع بخش شعبوں ميں سرمايہ کاری کی جائے، جس سے ايسے حالات پيدا ہوں گے کہ افغان شہری واپس وطن لوٹيں اور اپنے ملک کی تعمير نو کا حصہ بنيں۔ اس کے ليے بنيادی سہوليات کی فراہمی، ملازمتوں کے مواقع ميں اضافہ اور سلامتی کی بہتر صورتحال کا قيام لازمی ہے۔ اگر ان تين بنيادی چيزوں ميں بہتری لائی جائے، تو افغان پناہ گزينوں ک بڑی تعداد اپنے آبائی ملک لوٹنے کی خواہاں ہو گی۔ اس موقع پر ميزبان ممالک بھی يہ ديکھيں گے کہ جن افغان شہريوں نے اپنے کاروبار شروع کر رکھے ہيں اور معيشت ميں ان کی شراکت ہے، ممکن ہے کہ انہيں پاکستان ميں طويل المدتی بنيادوں پر مزيد قيام کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ ميرے خيال ميں چيلنجز کے باوجود افغان مہاجرين سے منسلک مسائل کے حل کے ليے عالمی برادری کا عزم ايک منفرد موقع قراہم کرتا ہے۔ افغانستان ميں قومی يکجہتی کی حکومت قائم ہے، سکيورٹی چيلنجز سے نمٹا جا رہا ہے اور کابل حکومت کافی کوشش کر رہی ہے کہ افغانستان سے باہر رہنے والے ملکی باشندوں کی وطن واپسی کو يقينی بنايا جائے۔ صدر اشرف غنی اس حوالے سے بنائے جانے والے اعلٰی سطحی کميشن کی سربراہی خود کر رہے ہيں، جس ميں نو وزراء بھی شامل ہيں۔ افغان حکومت مہاجرين کی وطن واپسی کے ايک منصوبے پر کام کر رہی ہے۔ بنيادی بات يہ ہے کہ مہاجرين سے منسلک مسائل کے حل کے ليے افغان حکومت کا عزم تو ہميں نظر آ ہی رہا ہے، اب اسے تمام تر چيلنجز کے باوجود بين الاقومی برادری کی ديرپہ، ٹھوس اور مسلسل حمايت درکار ہے۔ عالمی برادری کو اس موڑ پر افغانستان اور افغان شہريوں کو تنہا نہيں چھوڑنا چاہيے۔