پاکستان ميں ويلنٹائن ڈے، تصاویر کی زبانی
محبت کے اظہار کے لیے ہر سال چودہ فروری کو منائے جانے والے ویلنٹائن ڈے کی مقبولیت جہاں پاکستانی نوجوانوں کے ایک بڑے حصے کو اپنی جانب راغب کرتی ہے، وہیں اس دن کو منانے کی مخالفت میں کئی آوازیں بھی سنائی ديتی ہیں۔
گزشتہ چند برسوں میں پاکستان میں ویلنٹائن ڈے کی مقبولیت میں کافی اضافہ ہوا ہے اور بہت سے افراد اس دن کو مناتے ہیں۔
گزشتہ دو روز سے پاکستان بھر میں نوجوان ویلنٹائن ڈے کی مناسبت سے اپنے چاہنے والوں کے لیے کوئی نہ کوئی تحفہ خریدتے نظر آ رہے ہیں۔
اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ان نوجوانوں کا کہنا تھا کہ کسی خوبصورت جذبے کا اظہار کسی ایک دن کا محتاج نہیں، ’’لیکن اگر ایک دن ہم اپنے چاہنے والوں کو پھول یا کوئی اور تحفہ دے کر خوشی محسوس کرتے ہیں تو اس میں کیا برائی ہے۔‘‘
ویلینٹائن ڈے منانے میں کوئی بری بات نہیں یہ خیالات کم و بیش ہر اس شخص کے ہیں جو اس دن کی مناسبت سے کچھ نہ کچھ کر رہے ہیں اور ان کے لیے پاکستان میں گزشتہ چند برسوں سے فروری کے مہینے کی آمد کے ساتھ ہی دکانیں محبت کے اظہار کے لیے دیے جانے والے تحفے تحائف سے سجنے لگتی ہیں۔
جہاں ایک طبقہ اس دن کو منانے کے لیے پُر جوش نظر آتا ہے، وہیں اس کی مخالفت کی مہموں بھی زور و شور سے جاری رہتی ہیں۔ اس کی جھلک کہیں کہیں سڑکوں پر لگے ان بینرز پر نظر آتی ہے۔
تاہم چند روز قبل سے اس دن کو منانے کے خلاف ایک مہم چل رہی ہے۔ کراچی، اسلام آباد اور کئی دیگر شہروں میں اس دن کو نہ منانے کے پیغامات پر مبنی بینرز لگائے گئے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع کوہاٹ کی مقامی حکومت نے شہر میں ویلنٹائن ڈے کی مناسبت سے اشیاء کی خریداری پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس فیصلے کو سوشل میڈیا پر کئی افراد نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ملکی صدر ممنون حسین نے بھی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عوام پر زور دیا ہے کہ وہ ویلنٹائن ڈے منانے سے گریز کریں کیونکہ یہ دن اسلامی روایت کا نہیں بلکہ مغربی روايات کا حصہ ہے۔
لوگ چاہے اس دن کو منانے کے حق میں فیصلہ کريں یا اس کی مخالفت کریں، اس کا فائدہ کاروبار سے منسلک لوگوں کو ضرور ہوتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ شاپنگ سینٹرز ہوں یا ریستوران، ان سب پر اس دن کی خصوصیت کے پیش نظر نہ صرف مختلف پُرکشش پیکیجز پیش کیے جاتے ہیں۔