1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان ميں ڈيجيٹل سيکٹر فروغ پاتا ہوا

عبدالستار، اسلام آباد
22 جنوری 2023

کورونا کی عالمی وبا کی وجہ سے دنيا بھر ميں آن لائن خريد و فروخت، کاروبار اور رابطہ کاری کی ميں خاصا اضافہ ديکھا گيا۔ اسی کے ساتھ ڈيجيٹل ميدان ميں صلاحيتوں کی مانگ ميں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/4MYfR
Pakistan StudentInnen & Forschung Asteroiden, Kooperation NASA
تصویر: Rehmoz Salahuddin

پاکستان میں ایک حکومتی ادارے نے پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ علاقوں کے طلباء کو ڈیجیٹل امور کی ٹريننگ فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے، جس سے نوجوان نسل کے کئی افراد مستفيد ہو رہے ہيں۔

یہ منصوبہ نیشنل رُورل سپورٹ پروگرام (این آر ایس پی)، سٹی فاؤنڈیشن اور پاکستان تخفیف غربت فنڈ (پی پی اے ایف) کے تعاون سے شروع کیا گیا ہے۔ اب تک اس کے تحت 200 سے زائد نوجوانوں کو سوشل میڈیا مینجمنٹ، ای کامرس، گرافک ڈيئزائننگ اور انفارميشن ٹيکنالوجی کی بلا معاوضہ ٹریننگ دی جا چکی ہے۔ پروگرام میں پسماندہ اور کم ترقی یافتہ علاقوں سے تعلق رکھنے والوں کو ترجیح دی گئی ہے۔

روزگار کے مواقع

بہاولپور کے علاقے حاصل پور کے چک 143 مراد سے تعلق رکھنے والی زوفا ساجد نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ ان کا تعلق ایک پسماندہ علاقے سے ہے اور انہوں نے بارہويں جماعت تک پڑھائی حاصل کی ہے۔ زوفا نے بتایا، ''میں نے کچھ مہینے پہلے این آر ایس پی کے اس کورس میں داخلہ لیا اور کورس مکمل کرنے کے بعد کچھ امریکی کمپنیوں سے رابطہ کیا۔ مجھے اس وقت بے انتہا خوشی ہوئی، جب 75 ڈالر کی میری پہلی کمائی میرے ہاتھ ميں آئی۔‘‘

بہاولپور کے علاقے حاصل پور کے چک 143 مراد سے تعلق رکھنے والی زوفا ساجد
بہاولپور کے علاقے حاصل پور کے چک 143 مراد سے تعلق رکھنے والی زوفا ساجدتصویر: Privat

زوفا کے مطابق ان کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے ہے، جو کھیتی باڑی کرتا ہے اور ان کے گاؤں میں پڑھائی لکھائی کا بہت زیادہ رجحان نہیں ہے۔ ''میں اب ديگر کمپنیوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہی ہوں اور ای کامرس کے حوالے سے مزید معلومات حاصل کر رہی ہوں۔‘‘

چک 87 ایف سے تعلق رکھنے والے عبدالرحیم
چک 87 ایف سے تعلق رکھنے والے عبدالرحیمتصویر: Abdul Sattar/DW

حاصل پور کے ہی ایک گاؤں چک 87 ایف سے تعلق رکھنے والے عبدالرحیم نے بھی اس کورس میں حصہ لیا۔ انیس سالہ عبدالرحیم نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''میرا ایک کزن پہلے ہی ڈیجیٹل اسکلز سیکھ کر لاہور میں کام کر رہا ہے اور مجھے بھی یہ کام کرنے کا شوق تھا لیکن میرے پاس اتنے وسائل نہیں تھے۔ مجھے سٹی فاؤنڈیشن کے اس پروگرام نے یہ ٹریننگ مفت فراہم کی۔ ابھی میں نے صرف کام شروع کیا ہے اور میں ماہانہ تقریباً پانچ ہزار روپے کما رہا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ اگر میں کام جاری رکھوں گا تو بیس سے پچیس ہزار روپے ماہانہ کما سکوں گا۔‘‘

خواتین کے ليے مناسب

کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن سے تعلق رکھنے والی شہلا پروین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے کورسز خواتین کے لیے بہت مناسب ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''ہمارا معاشرہ قدامت پسند ہے، جہاں خواتین کو بہت سارے کام کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اگر وہ انجینيئرنگ یا میڈیکل کر کے ملازمت کر بھی لیں، تو شادی کے بعد انہیں ملازمت ترک کرنی پڑتی ہے۔ البتہ آن لائن مارکیٹنگ یا ڈیجیٹل اسکلز ایک ایسا ہنر ہے جس کو آپ شادی کے بعد بھی جاری رکھ سکتے ہیں۔‘‘

شہلا پروین کے مطابق انہوں نے ای کامرس میں اپنا کورس مکمل کیا اور پھر اس کے بعد محلے کی ایک کاسمیٹکس کی دکان کے ليے کام کرنا شروع کیا۔ ''شروع میں دکان مالک نے پیسے نہیں دیے لیکن بعد میں جب میں نے اس کی مصنوعات کو اچھے طریقے سے مارکیٹ کیا، تو اس نے مجھے اپنی پراڈکٹس فروخت کی اجازت بھی دے دی اور میں تھوڑے بہت پیسے کمانا بھی شروع ہو گئی۔‘‘

خیبر پختونخواہ میں خواتین کے لیے روزگار کی منفرد سروس

’کورسز سیکنڈری لیول پر شروع کيے جائیں‘

کراچی سے تعلق رکھنے والے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہر ڈاکٹر فہد ابدالی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ای کامرس کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے اور آنے والے وقت میں ڈیجیٹل اسکلز مزید اہمیت اختیار کر جائیں گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم نویں اور دسویں کلاس سے اس طرح کے کورسز شروع کریں تاکہ آگے جا کے طالب علموں کو اس حوالے سے مزید سیکھنے کا موقع ملے۔‘‘

ڈاکٹر فہد ابدالی کے مطابق ملتان اور جنوبی پنجاب کے کئی علاقوں میں دستکاری کا کام ہوتا ہے اور چھوٹے شہروں میں نوجوان طالب علم ان اسکلز کے ذریعے ایسی اشیاء کی مارکیٹنگ کر سکتے ہیں۔ ''اس کے علاوہ سوشل میڈیا مینجمنٹ کے ذریعے مقامی سیاستدانوں کی سیاسی تشہیر کی جا سکتی ہے کیونکہ عموماً مقامی سیاست دانوں کی یا تو سوشل میڈیا سے اتنی وافیت نہیں ہے یا ان کے پاس اس کو استعمال کرنے کا وقت اور ہنر نہیں ہے۔ یوٹیوب کی وجہ سے بھی پسماندہ اور دور دراز کے علاقے کے نوجوانوں نے روزگار کے مواقع تلاش کر لیے ہیں اور ان کی دلچسپی ڈیجیٹل اسکلز میں بڑھتی جا رہی ہے۔‘‘

حکومت کی جانب سے ڈیجیٹل اسکلز کا فروغ

اقوام متحدہ کے اعلی سطحی پینل برائے ویمنز اکنامک ڈيولپمنٹ کی رکن فضا فرحان کے ایک آرٹیکل کے مطابق پاکستان میں اس وقت 176 ملین اسمارٹ فون استعمال کرنے والے ہیں جب کہ 70 ملین انٹرنیٹ صارفین ہیں۔ ان میں سے تیس ملین فیس بک استعمال کرتے ہیں اور صرف دو ملین ٹویٹر استعمال کرتے ہیں۔

پاکستانی نوجوانوں میں غیر ملکی شہریت حاصل کرنے کا بڑھتا رجحان

پاکستان، یکساں تعلیمی مواقع کی کمی اور غریب بچوں کا المیہ

رشکئی اقتصادی زون، ’سی پيک کا پھل ملنا شروع ہو گیا‘

پاکستان میں ڈیجیٹل معاشرے کے مواقع ضائع

یہ تاثر عام ہے کہ بھارت کے مقابلے میں پاکستانی انفارمیشن ٹیکنالوجی سيکٹر بہت پیچھے ہے۔ تاہم وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی سید امین الحق اس تاثر کو رد کرتے ہیں۔ امین الحق نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''موجودہ حکومت ڈیجیٹل اسکلز پر بہت کام کر رہی ہے۔ ہم نے ڈیجیٹل اسکلز پروگرام ون کے تحت پینتیس لاکھ نوجوانوں کو مفت ٹریننگ دی اور اس پروگرام کے دوسرے مرحلے کے ليے آٹھ لاکھ سے زائد نوجوان پہلے ہی اندراج کرا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم پنجاب حکومت کے ساتھ مل کر فری لانسرز کے ليے بھی پروگرام شروع کر رہے ہیں۔‘‘

سید امین الحق کے مطابق اس کے علاوہ حکومت بڑی غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ مل کر بھی مختلف نوعیت کے پراجیکٹس کر رہی ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ ڈیجیٹل اسکلز کے حوالے سے تربیت دینے کا سلسلہ بہت اچھا ہے لیکن نیشنل رورل سپورٹ پروگرام، سٹی فاؤنڈیشن اور وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کو 'ڈیجیٹل حبز‘ قائم کرنے کی ضرورت ہے، جہاں پر ایسے تجربہ کار افراد کو متعین ہونا چاہیے جو ہنر سیکھنے والے ان طالب علموں کا رابطہ صنعتوں اور سروس انڈسٹریز سے کرا سکیں اور ان کے ليے روزگار کے مواقع تلاش کر سکیں۔