1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان ميں کورونا پر رپورٹنگ کے تين ماہ

شاہ زیب جیلانی
8 جون 2020

وزير اعظم عمران خان کی حکومت جس طرح اس بحران سے نمٹی ہے، اس کے بعد تشويش بڑھ گئی ہے کہ ملک کن لوگوں کے ہاتھوں ميں ہے۔

https://p.dw.com/p/3dSLc
Shahzeb Jillani DW Mitarbeiter Urdu Redaktion
تصویر: DW

پچھلے ہفتے پاکستان نے اعلان کیا کہ انٹرنیشنل پروازیں شروع کی جا رہی ہیں۔ میں نے جرمنی واپسی کے لیے پہلے منگل کے لیے قطر ايئر ویز کے فلائٹ بُک کی، لیکن وہ بعد میں منسوخ ہو گئی۔ پھر آئندہ ہفتے کے لیے ترکش ایئر ویز کی پرواز پکڑنا چاہی لیکن دو روز بعد وہ بھی منسوخ ہو گئی۔ آخر میں کوئی راستہ نہ بچا تو پی آئی اے کی فرینکرٹ کے لیے ایک خصوصی پرواز میں جگہ مل گئی لیکن یہ فلائٹ لاہور سے تھی اور میں کراچی میں۔ مرتا کیا نہ کرتا، گاڑی اٹھائی اور لاہور کے لیے نکل پڑا۔ راستے میں ٹائر پنکچر ہوا اور ایک آدھ جگہ حادثہ ہوتے ہوتے رہ گیا لیکن میں پوری رات کے سفر کے بعد کسی نہ کسی طرح صبح پانچ بجے علامہ اقبال ایئر پورٹ پہنچ گیا۔ فلائٹ چھ بجے کی تھی اور بورڈنگ تقریباً بند ہو چکی تھی۔ یہ تو بھلا ہو پی آئی اے والوں کا، جیسے بھی ہیں آخر میں ترس کھا کر جہاز پہ چڑھا ہی دیتے ہیں۔

یوں میں کوئی چوبیس گھنٹوں کی مسافت کے بعد تین ماہ پاکستان میں گزارنے کے بعد واپس جرمنی پہنچ گیا۔ ان تین ماہ کے دوران میں پاکستان سے کورونا کی دن بدن بدلتی صورتحال پر رپورٹنگ کرتا رہا۔ ہمارے موجودہ حکمرانوں کے اعمال اور گفتار دیکھتے ہوئے ان سے کوئی خاص توقعات نہیں تھیں کہ اس عالمی ایمرجنسی کے دوران وہ کوئی زبردست کارنامے دکھائیں گے۔ لیکن جس انداز میں ہمارے وزیر اعظم صاحب اس بحران سے نمٹے اُس نے مایوس تو کیا ہی لیکن اب تشویش بھی ہے کہ ملک کن لوگوں کے ہاتھوں میں ہے۔

مارچ کے اوائل میں جب میں کراچی پہنچا تھا تو ایئر پورٹ پر ہنگامی صورتحال تھی۔ ڈاکٹر، ایف آئی اے، فوجی اور دیگر سرکاری اہلکار حرکت میں نظر آئے۔ اُس وقت لگا کہ حکومت اس وبا کو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔

آہستہ آہستہ کیسز بڑھنے لگے تو حکومتِ سندھ نے پہل کرتے ہوئے لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا۔ ایئر پورٹ بند ہوگیا، پروازیں منسوخ اور میں وہیں میں قابو ہو کر رہ گیا۔ عمران خان صاحب کی لاک ڈاؤن کی مخالفت کے باوجود اپریل میں تقریباً پورا ملک ہی بند رہا۔ اس دوران پاکستان میں کورونا کے کیسز اور اموات پر نسبتا کنٹرول رہا۔ باہر سے آنے والے مسافروں، ایران سے زائرین اور پھر تبلیغیوں کی وجہ سے جو کیسز پھیلے اس میں وفاقی حکومت کی سستی اور نا اہلی سامنے آئی۔

لیکن جوں جوں دن گزرتے گئے عمران خان نقل و حرکت پر پابندیاں مؤثر بنانے کی بجائے انہیں ختم کرنے کے لیے بے چین نظر آئے۔ رمضان سے پہلے علما اور تاجروں نے اپنا روایتی اثر دکھنا شروع کیا۔ انہوں نے مساجد اور بازار کھولنے کا مطالبہ کیا اور حکومت کو دھمکیاں بھی دیں۔

Pakistan Pressebilder Deutsche Botschaft Islamabad | Deutsche Hilfe in der Corona-Pandemie
تصویر: Deutsche Botschaft Islamabad

دوسری طرف ملک کے سرکردہ طبی ماہرین اور ڈاکٹر تھے جو اس وبا سے نمٹنے میں سب سے آگے اور رسک پر تھے۔ وہ حکومت سے اپیلیں کرتے رہے کہ انہیں حفاظتی سامان مہیا کیا جائے، ٹیسٹنگ کِٹس دی جائیں، عوامی مقامات پر لوگوں کی نقل و حرکت اس وقت تک بند رکھی جائے جب تک ہم مناسب تیاری نہیں کر لیتے۔ لیکن عمران خان اور ان کے نادان چاہنے والوں نے ان بیچاروں کی ایک نہ سنی۔

انہوں نے سُنی تو علما اور تاجروں کی، جن کے مطالبات کو جواز بنا کر رمضان سے پہلے لاک ڈاؤن غیر مؤثر کر دیا گیا۔ بظاہر خان صاحب کہتے رہے کہ انہیں غریبوں اور دھاڑی والوں کی فکر کھائے جا رہی ہے، لیکن ان پر اصل پریشر سرمایہ داروں، کارخانے والوں اور با اثر کاروباری حلقوں کا تھا، جن کا روزانہ کا کروڑوں منافع رُک گیا تھا۔

پھر عید سے پہلے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی اس معاملے میں کود پڑے۔ دنیا نے مانا کہ کورونا سے نمٹنے میں پاکستان میں خلاف توقع جو تھوڑی بہت پُھرتی دکھائی، وہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کی سندھ حکومت نے دکھائی۔ لیکن سپریم کورٹ نے بھی چڑھائی کی تو اسی حکومت پر، اسےپابندیاں نرم کرنے کا حکم دیا اور رہا سہا لاک ڈاؤن بھی ناکام کر دیا گیا۔

ایسے میں جب لوگوں نے کئی ہفتوں بعد نکالنا شروع کیا تو ایسا لگا جیسے مرغیوں کو پنجروں سے کھول دیا گیا ہو۔ ہر جگہ رش ہی رش تھا۔ مساجد کے باہر تراویح، بازاروں میں عورتوں اور بچوں کا رش۔ کسی کو سماجی دوری یا ماسک پہننے کی فکر نظر نہ آئی۔ وفاقی حکومت نے یہ کہہ کر اپنی جان چھُڑا لی کہ لوگ اپنا بچاؤ خود کریں لیکن کاروبار ہر صورت چلے گا۔

Pakistan | Coronavirus | Lockdown | Lockerungen | Geschäfte
تصویر: DW/S. Saeed

اس صورتحال میں ڈاکٹروں اور سندھ حکومت کے سب سے متحرک ارکان بھی  آخر چُپ کرکے بیٹھ گئے۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پچھلے ایک ماہ کے دوران پاکستان میں کورونا کے کیسز چار گُنا بڑھ گئے اور ہماری تعداد چین سے بھی آگے نکل گئی ہے۔ صرف پچھلے دو ہفتوں میں اموات کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔

جرمنی سمیت دنیا کے دیگر ملکوں نے وبا میں قابو پانے کے بعد پابندیاں نرم کرنا شروع کیں۔ خان صاحب کی حکومت نے اپنی ضِد کی وجہ سے یہ پابندیاں حالات بہتر ہونے سے پہلے ہی اٹھا دیں۔

اب وہ اور ان کے مشیر روز ٹی وی پر آ کر لوگوں کو سماجی دوری اور ای او پیز سے متعلق کتنے ہی لیکچر کیوں نہ دیں، اُن کا کوئی اثر نہیں ہونا۔ کیونکہ وہ بارہا خود کہہ چکے ہیں کہ حکومت لوگوں کے پیچھے ڈنڈا لے کر نہیں جا سکتی۔

چین، جرمنی اور کئی ممالک میں کورونا کا خطرہ کم ہو رہا ہے لیکن پاکستان میں بڑھ رہا ہے۔ اس بحران کے دوران جس قسم کی لیڈرشپ ہم نے دکھائی، اس کے لیے صرف اور صرف وزیراعظم عمران خان کی حکومت ذمہ دار ہے۔