پاکستان میں آسیہ بی بی کی جان کو لاحق خطرات
16 مارچ 2011جرمنی کی کیتھولک نیوز ایجنسی KNA کے استفسار پر پاکستان کی انسانی حقوق کی علمبردار تنظیم مسیحی فاؤنڈیشن کے لندن دفتر نے بتایا کہ یہی ڈر آسیہ بی بی کے وکلاء کو بھی ہے۔ اِن وکلاء کو بھی، جنہوں نے اِس مسیحی خاتون کی سزائے موت کے خلاف اپیل کر رکھی ہے، یہ خدشہ ہے کہ آسیہ بی بی مسلمان انتہا پسندوں کا اگلا ممکنہ ہدف ہو سکتی ہے۔
مسیحی فاؤنڈیشن کے لندن دفتر کے مطابق بنیاد پرست متاثرین کی امداد کو بھی توہینِ رسالت کے طور پر دیکھتے ہیں، اِس لیے اِس فاؤنڈیشن کے کارکن اور وکلاء اب پاکستان میں منظرِ عام پر نہیں آتے۔ فاؤنڈیشن کے نمائندوں کے مطابق اُن کی پوری ٹیم کو خطرہ ہے کیونکہ وہ آسیہ بی بی اور اُس کے خاندان کی بھی مدد کر رہے ہیں۔
آسیہ بی بی کی حمایت اور توہینِ رسالت کے قانون پر تنقید ہی کی پاداش میں پاکستانی صوبہء پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر اور اقلیتی امور کے وفاقی وزیر شہباز بھٹی انتہا پسندوں کے ہاتھوں قتل ہو چکے ہیں۔ بنیاد پرست حلقوں کے دباؤ ہی کی وجہ سے حکومتِ پاکستان نے اِس قانون میں ترمیم کے ارادے ترک کر دیے ہیں۔
اِسی دوران توہینِ رسالت کے قانون کے تحت فروری سن 2010 میں عمر قید کی سزا پانے والا ایک مسیحی قیدی پیر اور منگل کی درمیانی شب کراچی کی ایک جیل میں حرکتِ قلب بند ہونے سے انتقال کر گیا۔ انسانی حقوق کے علمبردار حلقوں نے مطالبہ کیا ہے کہ اِس معاملے کی تحقیقات کروائی جائیں۔ اٹلی کے دارالحکومت روم سے پریس سروس ایشیا نیوز نے خبر دی ہے کہ قمر ڈیوڈ نامی اِس مسیحی قیدی کو قید کے دوران بار بار تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
اِدھر برطانیہ کے کارڈینال کیتھ اوبرائن نے لندن حکومت کے پاکستان میں مذہبی آزادیوں کا مطالبہ کیے بغیر اِس ملک کو مالی امداد فراہم کرنے کے منصوبوں کو ہدف تنقید بنایا ہے۔ برطانیہ نے حال ہی میں پاکستان کے لیے اپنی امداد کو دگنے اضافے کے ساتھ 445 ملین پاؤنڈ سے بھی زیادہ کر دینے کا اعلان کیا تھا۔ جواب میں وزارتِ خارجہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ لندن حکومت کی خارجہ پالیسی میں مذہبی آزادی کو بدستور ایک اہم نکتے کی حیثیت حاصل ہے۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: امتیاز احمد