1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں اعتدال پسند نظریات کو فروغ دینے کے لیے سرگرداں ’خودی‘

7 دسمبر 2011

انتہاپسندی کی لپیٹ میں آئے ہوئے پاکستان میں ترقی پسند مسلمانوں کا ایک چھوٹا سا گروپ اعتدال پسندانہ خیالات کو فروغ دینے کے ذریعے معاشرے میں انتہاپسندی کی یلغار کو روکنے کی جدوجہد کر رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/13OAw
تصویر: AP

’خودی‘ نامی تنظیم ایک سماجی تحریک قائم کرنے کے ذریعے بظاہر ایک ناممکن فریضہ سر انجام دے رہی ہے۔ حال ہی میں پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں اس تنظیم کے اجلاس میں انہیں مذہبی بنیاد پرستی اور انتہاپسندی کے نظریات کو چیلنج کرنے پر حاضرین کی جانب سے تند و تیز سوالات کا سامنا کرنا پڑا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جوہری ہتھیاروں کے حامل اس ملک میں حکام کی انتہاپسندی پر قابو پانے میں ناکامی کے بعد یہ نظریات کتنی گہرائی تک سرایت کر چکے ہیں۔

خودی کی بنیاد اسلام پسند گروپ حزب التحریر کے سابق رکن ماجد نواز نے 2010ء میں رکھی تھی۔ برطانوی نژاد پاکستانی ماجد کے اہل خانہ ماضی میں کئی برسوں تک یورپ سے مصر تک نوجوانوں کو اس بات کا درس دیتے رہے تھے کہ مغربی طرز کی جمہوریت کا مقدر ناکامی ہے اور صرف اسلامی احکامات پر مبنی معاشرے ہی کامیاب ہو سکتے ہیں۔ وہ خود بھی اپنی انہی سرگرمیوں کے باعث قاہرہ کی ایک جیل میں قید کی سزا کاٹ چکے ہیں جہاں اپنے ساتھی قیدیوں کے ساتھ مباحث اور تبادلہ ء خیال کے بعد ان کا کایا پلٹ گئی اور انہوں نے اپنے قدامت پسند ملک پاکستان میں اعتدال پسندانہ نظریات کو فروغ دینے کا تہیہ کیا۔

خودی کے اراکین کا ماننا ہے کہ تبدیلی آنے میں کئی برس کا عرصہ لگے گا۔

پاکستان جیسے قدامت پسند معاشرے میں سیکولر ازم کے لفظ کا صرف تذکرہ ہی مسئلہ بن سکتا ہے کیونکہ اسے لادینی تصور سمجھا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے کسی سیکولر شخص پر کافر ہونے کا ٹھپہ لگانا بھی کافی عام ہے۔

Maajid Nawaz
خودی کی بنیاد اسلام پسند گروپ حزب التحریر کے سابق رکن ماجد نواز نے 2010ء میں رکھی تھیتصویر: AP

34 سالہ ماجد نواز نے ایک ٹیلی فون انٹرویو میں روئٹرز کو بتایا، ’’ہم جمہوری تحریک قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا پاکستان اس لحاظ سے ایک دشوار ملک ہے اور جو کوئی بھی اپنی زبان سے لفظ جمہوریت نکالتا ہے اس پر فوراﹰ ہی مغربی پٹھو ہونے کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔

خودی تحریک کا خیال ہے کہ پاکستان میں صرف آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد ہی کافی نہیں ہے کیونکہ مذہبی بنیاد پرستی آزادی اظہار اور اجتماع کی آزادی جیسے تصورات کا گلا گھونٹ رہی ہے۔

آٹھ کے قریب انتظامی کمیٹی کے اراکین اور پانچ ہزار رضاکاروں پر مشتمل اس تنظیم کا ہتھیار نظریات ہیں اور اس کا اصرار ہے کہ عسکریت پسندوں پر فوجی کریک ڈاؤن کے مثبت نتائج برآمد نہیں ہوتے۔ خودی کے اراکین اپنے نظریات کی تبلیغ کے لیے یونیورسٹیوں میں ورکشاپیں منعقد کرتے ہیں اور پمفلٹ تقسیم کرنے کے علاوہ ایسی فلمیں دکھاتے ہیں جن میں تشدد کی مذمت کی جاتی ہے۔

یہ گروپ اس سخت گیر اسلامی نظریے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کر رہا ہے جس کے بیج 1980ء کی دہائی میں ضیاء الحق کی فوجی حکومت کے دور میں بوئے گئے تھے۔

خودی تنظیم کے کام میں ایک بڑا مسئلہ یہ عام سوچ ہے کہ مغرب عالم اسلام کے خلاف سازشیں کر رہا ہے۔ نومبر کے اواخر میں نیٹو کے ایک فضائی حملے میں چوبیس پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت جیسے واقعات ان تصورات پر جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کر رہے ہیں۔

Muhammad Zia ul-Haq
گروپ اس سخت گیر اسلامی نظریے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کر رہا ہے جس کے بیج 1980ء کی دہائی میں ضیاء الحق کی فوجی حکومت کے دور میں بوئے گئے تھےتصویر: AP

اگرچہ خودی پاکستان میں کافی عرصے سے خاموشی سے رینگتے ہوئے بنیاد پرستی کے سانپ کے بارے میں تشویش میں مبتلا ہے مگر رواں برس توہین رسالت قانون میں ترمیم کا مطالبہ کرنے والے سابق گورنر سلمان تاثیر کا اپنے ہی محافظ کے ہاتھوں قتل اور وزیر اقلیتی امور شہباز بھٹی کے قتل جیسے واقعات نے ان خدشات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

لاہور میں ایک طالبہ نفیسہ علی کا کہنا تھا کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا تصور ایک ایسے پاکستان کا قیام تھا جو مذہبی رواداری پر مبنی ہو اور جہاں انتہاپسندی اور عدم برداشت کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ خودی کا مقصد بھی ایسے ہی پاکستان کا حصول ہے۔

رپورٹ: حماد کیانی / خبر رساں ادارے

ادارت: عابد حسین

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں