پاکستان میں اقلیتی عائلی قوانین: ہندو میرج بل قانون بن گیا
21 مارچ 2017خاص طور پر پاکستانی ہندو اقلیت سے متعلق ازدواجی شعبے میں اس قانون سازی سے اس مسلم اکثریتی جنوبی ایشیائی ملک کے ہندو شہریوں کو ان کی شادیوں اور دیگر خاندانی امور کے سلسلے میں مکمل قانونی تحفظ حاصل ہوگیا ہے۔
اس ہندو میرج بل کو گزشتہ ماہ پاکستان کی وفاقی پارلیمان کے دونوں ایوانوں کی طرف سے منظوری کے بعد وزیر اعظم نوز شریف کی ہدایت پر حمتی منظوری کے لیے ایوان صدر بھیجا گیا تھا، جس پر اب صدر مملکت ممنون حسین نے دستخط بھی کردیے ہیں۔
اس بل کی منظوری کے موقع پر وزیر اعظم نواز شریف نے پارلیمان نے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کی مذہبی اقلیتی برادریاں بھی اتنی ہی محب وطن ہیں، جتنے اس ملک کے اکثریتی طور پر مسلم شہری اور ان اقلیتوں کے جملہ حقوق کا تحفظ بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔
پاکستان میں رہنے والی سرکاری طور پر تین فیصد غیر مسلم اقلیتیوں میں سے مسیحیوں کی طرح ہندوؤں کا شمار بھی سب سے بڑی اقلیتوں میں ہوتا ہے۔ پاکستانی ہندوؤں کی سب سے بڑی تعداد صوبہ سندھ میں آباد ہے۔ ابھی تین ماہ قبل ہی صوبہ سندھ میں حکمران پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھی کراچی میں صوبائی اسمبلی سے ایک ہندو میرج بل منظور کرایا تھا، جس میں ہندوؤں کی مبینہ جبری مذہبی تبدیلی کی روک تھام کے حوالے سے قانون سازی کی گئی تھی۔
یہ بل سندھ اسمبلی میں بغیر کسی مخالفت کے منظور ہوا تھا تاہم پیپلز پارٹی اس بل کے حوالے سے مذہبی جماعتوں کی مخالفت برداشت نہیں کر سکی تھی۔ اسمبلی میں منظوری کے بعد یہ بل دستخطوں کے لیے صوبائی گورنر کو بھیجا جا چکا تھا لیکن پاکستان پیپلز پارٹی نے مذہبی جماعتوں کے اعتراضات کی وجہ سے پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق ملکی صدر آصف علی زرداری کی ہدایت پر یہ مسودہ گورنر ہاؤس سے واپس منگوا لیا تھا۔
پاکستان میں اس ہندو میرج بل کی منظوری کے لیے جدوجہد کرنے والے اسلام آباد میں حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نون کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار نے اس بارے میں ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ بالآخر ان کی تین سال کی محنت رنگ لے آئی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’اس بل کی منظوری سے ہندو برادری کو درپیش میرج سرٹیفیکیٹ سمیت کئی قانونی دستاویزات سے جڑے تمام مسائل حل ہوجائیں گے۔‘‘
اسی بارے میں معروف ہندو تاجر کھیل داس کوہستانی نے کہا، ’’پہلے ہندوؤں کی شادیوں کا سرکاری طور پر کوئی اندراج نہیں ہوتا تھا اور مہاراج سے سرٹیفیکیٹ لے کر گزارا کرنا پڑتا تھا، جو جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا۔ اس کے بغیر نہ تو پاسپورٹ بنتا تھا اور نہ ہی شناختی کارڈ۔‘‘
سندھ حکومت کی صوبے میں ہندوؤں سے متعلق قانون سازی کے بارے میں کھیل داس کوہستانی نے کہا، ’’پیپلز پارٹی ہمارے جذبات سے کھیل رہی ہے۔ تین صوبوں میں میرج بل نافذالعمل ہوچکا ہے لیکن سندھ میں جبری تبدیلی مذہب کی شکایات سب سے زیادہ ہونے کے باوجود اس موضوع پر قانون سازی پر تاحال بس سیاست ہی کی جا رہی ہے۔‘‘
پاکستانی ہندوؤں کی ایک مذہبی شخصیت پنڈت شام لال شرما نے اس حوالے سے کہا کہ نئے ملکی قانون میں پنڈتوں سے متعلق بھی وضاحت ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا، ’’میں گزشتہ بیس برسوں سے شادیاں کرا رہا ہوں۔ اب تک تقریباﹰ ساڑھے تین ہزار شادیاں کرا چکا ہوں۔ لیکن ان کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ پھر بھی اس قانون سے کم از کم ایسی شادیوں کو قانونی حیثیت تو مل گئی۔‘‘
پاکستان میں ہندوؤں کے علاوہ دیگر اقلیتی برادریوں اور مسلم اکثریت کی جانب سے بھی اس ہندو میرج بل کو ایک مثبت اقدام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام سندھ کے جنرل سیکرٹری قاری محمد عثمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اقلیتوں کے خاندانی امور کو قانونی شکل اور تحفظ دینا بہت اچھی بات ہے۔
ان کے بقول دنیا بھر میں پاکستان میں اقلیتوں کی صورت حال سے متعلق جو منفی تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے اور جو پروپیگنڈا کیا جاتا ہے، اس قانون سے اس تاثر کے تدارک میں بھی بہت مدد ملے گی۔