پاکستان میں امریکی ڈالر کو پر لگ گئے
19 مئی 2022پاکستان کی مخدوش اقتصادی حالت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انٹربینک اور اوپن مارکیٹ دونوں میں ہی امریکی ڈالر کی قیمت دو سو روپے کی ریکارڈ سطح پر پہنچ چکی ہے۔ اقتصادی تجزیہ کاروں کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت کو فوری طور پر سابق حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدے کے تحت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑا اضافہ کرنا ہے تاکہ انہیں آئی ایم ایف سے مزید قرض حاصل ہو سکے اور حکومت معاملات کے ساتھ معیشت کے لیے بھی استحکام ممکن ہو، مگر فیصلہ سازی میں حکومت کی جانب سے مسلسل تاخیر سے معاملات مزید گھمبیر ہوتے جارہے ہیں۔
ڈالر کی اونچی اڑان کا سلسلہ جاری
سیاسی صورت حال اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے مذاکرات کے باوجود امریکی ڈالر کی قیمت میں اضافے اور پاکستانی روپے کی قدر میں مسلسل کمی کا سلسلہ جاری ہے، جمعرات کو ایک موقع پر انٹر بینک میں ڈالر کی قیمت میں ایک روپے اکسٹھ پیسے اضافہ ہوا، جس کے بعد ڈالر پہلی بار دو سو روپے کا ہو گیا جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر دو سو ایک روپے سے بھی تجاوز کر گیا۔
اس صورتحال پر کرنسی ایکسچینج کمپنیز کے سیکرٹری جنرل ظفر پراچہ نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت میں کہا،''ڈالر کی قیمت میں اضافہ تشویش ناک ہے، جب سے نئی حکومت آئی ہے، ڈالر کی قدر میں اضافہ رکنے کا نام نہیں لے رہا، ڈالر کی قیمت سے متعلق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل سے ایسوسی ایشن کے عہدیداروں نے بات کی ہے، جبکہ وزیراعظم شہباز شریف کا بھی فاریکس ڈیلرز ایسوسی ایشن سے رابطہ ہوا ہے، ہم نے تجویز دی ہے کہ غیر ضروری اشیا کی درآمد پر فوری پابندی لگائی جائے، جو بھی درآمد کرنا چاہتا ہے، وہ ڈالر کا انتظام خود کرے۔‘‘
اضافے کی وجوہات
فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر ملک بوستان نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت میں بتایا کہ انہوں نے رابط کرنے پر وزیراعظم شہباز شریف کو لگژری آئٹمز کی درآمد پر پابندی کی تجویز دی ہے۔ انہوں نے وزیر اعظم کو بتایا کہ سیاسی عدم استحکام، آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط ملنے میں تاخیر اور بڑھتا تجارتی خسارہ، ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجوہات ہیں۔
بوستان نے مزید کہا، ''کمرشل بینک انٹر بینک میں ڈالر کی قیمت ایک روپے کم کریں تو ہم اوپن مارکیٹ میں 2 روپے کم کردیں گے، لگژری آئٹمز کی درآمد پر پابندی لگائیں کیونکہ لگژری آئٹمز کی درآمد روک کر سالانہ 12 ارب ڈالر بچائے جا سکتے ہیں۔‘‘
غیر ضروری درآمد پر فوری پابندی
وزیراعظم شہباز شریف نے لگژری گاڑیوں اور کاسمیٹکس کے سامان سمیت دیگر غیر ضروری اشیا کی درآمد پر پابندی عائد کی ہے، جس پر فوری عمل درآمد کے لیے احکامات جاری کر دیے گئے ہیں۔
پاکستانی معیشت پر گہری نظر رکھنے والے صحافی حارث ضمیر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بڑھتی درآمدات اور زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ کی وجہ سے لگژری اشیا کی امپورٹ پر پابندی عائد کی گئی ہے، جس سے روپے کی قدر میں مزید کمی نہیں ہو گی۔
حارث نے مزید کہا، ''پاکستان کا تجارتی خسارہ مسلسل بڑھ رہا ہے، رواں مالی سال جولائی 2021 سے اپریل 2022 کے دوران بیرونی تجارت میں پاکستان کو 39 ارب ڈالر سے زائد خسارہ ہوا، اس دوران پاکستان نے 65 ارب 50 کروڑ ڈالر کی درآمدات کیں، صرف اپریل میں درآمدی حجم 6 ارب 67 کروڑ ڈالر رہا، توقع ہے کہ غیر ضروری اور لگژری اشیا کی درآمد پر پابندی سے روپے کی قدر کو سہارا ملے گا اور ڈالر نیچے آئے گا۔‘‘
سونے کی قدر میں بھی اضافہ
ملک میں ڈالر کی قیمت میں اضافے کا اثر صرافہ بازار میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔ عالمی صرافہ بازار میں سونے کی قیمت میں کمی کے باوجود مقامی بازار میں سونا مہنگا ہو رہا ہے۔ سندھ صرافہ بازار جیولرز ایسوسی ایشن کے صدر حاجی ہارون چاند نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ڈالر کی قیمت میں اضافے سے درآمدی لاگت بڑھ رہی ہے، اگرچہ بدھ کو بین الاقوامی مارکیٹ میں سونے کی قیمت سترہ ڈالر کم ہوئی، لیکن مقامی مارکیٹ میں ایک تولہ سونے کا بھاؤ تین سو روپے اضافے سے ایک لاکھ اڑتیس ہزار چار سو روپے کی بلند سطح پر پہنچ گیا۔
پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی صورتحال
سیاسی و معاشی صورتحال کے گہرے اور واضح اثرات پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر بھی دیکھے جارہے ہیں۔ چیئر مین اے کے ڈی گروپ عقیل کریم ڈھیڈھی نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت میں کہا کہ ملک کی معاشی حالت اطمینان بخش نہیں، گزشتہ دور حکومت میں بڑی محنت سے معاشی اشاریوں میں بہتری آئی تھی، سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا تھا، معیشت ترقی کی راہ پر آگئی تھی، ایکسچینج ریٹ میں اضافہ ہو رہا تھا، لیکن یہ بھی مارکیٹ مکینزم کا حصہ تھا، لیکن اب صورتحال تشویش ناک ہے، کیا ہونے والا ہے کچھ واضح نہیں، روپے اپنی قدر کھو رہا ہے، اسٹاک مارکیٹ بھی نیچے آئی ہے، حکومت کو جلد از جلد بڑے فیصلے کرنا ہوں گے۔
غیر یقینی سیاسی صورتحال اور عالمی وبا کورونا کے خطرات کے باوجود رواں مالی سال ملکی معاشی ترقی کی شرح 6 فیصد کے قریب پہنچ گئی، نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال ملکی معیشت کا حجم 38 ہزار 755 ارب روپے تک پہنچ جائے گا، رواں مالی سال خدمات کے شعبے کی ترقی 6.19 فیصد متوقع ہے، جبکہ صنعتی ترقی کی شرح 7.19 فیصد اور زرعی شعبہ میں ترقی کی شرح 4.4 فیصد متوقع ہے۔
سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں کہا ہے،''مسلسل دوسرے سال معاشی ترقی کی شرح 5.5 فیصد سے زائد رہی، اس کامیابی کا سہرا عمران خان کی قیادت اور اقتصادی ٹیم کی کاوشوں کو دوں گا، اس سے قبل 2005 میں معاشی ترقی 5.5 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی، جب انکل سیم نے اربوں بھیجے تھے، انکل سیم نے رقم دہشت گردی کے خلاف جنگ کے انعام میں دی تھی۔‘‘