پاکستان میں انسانی اعضاء کی فروخت کا کاروبار
28 اگست 2012اعضاء کی غیر قانونی فروخت جن ممالک میں جاری ہے، ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔ گزشتہ سال سے ایک مرتبہ پھر انسانی اعضاء، خاص طور پر گردوں کی فروخت کے واقعات سامنے آنے لگے ہیں۔ پاکستان کے اندر گھمبیر ہوتے اقتصادی مسائل اور بڑھتی غربت کو بھی اس کی بڑی وجہ خیال کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے صوبے سندھ میں انسانی اعضا کی غیر قانونی فروخت قدرے کنٹرول میں دکھائی دیتی ہے۔ جب کہ سب سے بڑی آبادی والے صوبے پنجاب میں یہ صورت حال خراب ہوتی جا رہی ہے۔ پاکستانی پنجاب سے اس غیر قانونی دھندے کے بارے میں رپورٹیں تواتر سے آنے لگی ہیں۔
ابھی دو ماہ پہلے کی بات ہے کہ کاروبار میں شدید گھاٹا کھانے والے آصف احمد نے انٹرنیٹ پر اشتہار دیا کہ وہ اپنا ایک گردہ فروخت کرنا چاہتا ہے۔ اٹھائیس برس کے آصف نے گھمبر ہوتے اقتصادی مسائل سے نجات کے لیے گردہ بیچنے میں عافیت سمجھی۔ آصف کا یہ کہنا ہے کہ پاکستان میں اس انداز میں گردے کی فروخت کے خلاف قانون موجود ہے لیکن اس کے پاس ایسا کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ آصف کا تعلق پاکستان کے جنوبی بندرگاہی شہر کراچی سے ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ پاکستان میں انسانی اعضا کی غیر قانونی فروخت کے حوالے سے ایک قانون سن 2010 میں نافذ ہو گیا تھا۔ پاکستان میں ٹرانسپلانٹ کے قانون کے نفاذ کے بعد اس دھندے میں خاصی کمی واقع ہوئی تھی۔ ممتاز ریسرچر ڈاکٹرفرحت معظم کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس کے دوران اس کاروبار میں ایک بار پھر شدت پیدا ہونے پر معالجین اور سول سوسائٹی کو سنگین تشویش لاحق ہے۔ ڈاکٹر فرحت معظم صوبہ سندھ کے مرکزی ٹرانسپلانٹ ادارے SIUT میں بائیو میڈیکل ایتھکس اینڈ کلچر کے شعبے کی سربراہ ہیں۔
ڈاکٹر فرحت معظم کا کہنا ہے کہ ایسی اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ پاکستانی اور بعض غیر ملکی مریض صوبہ پنجاب میں گردے خریدنے کے عمل میں شریک ہو رہے ہیں۔ غیر ملکیوں کا تعلق مشرق وسطیٰ کے ممالک سے بتایا جاتا ہے۔ خاص طور پر غیر ملکی مریضوں کے گردے خریدنے کو پاکستانی ذرائع ابلاغ پر بھی رپورٹ کیا گیا ہے۔ امکاناً اسی تناظر میں ٹرانسپلانٹ سوسائٹی آف پاکستان کے علاوہ سول سوسائٹی کی بعض سرگرم تنظیموں نے سپریم کورٹ میں ایک اپیل دائر کی ہے اور اس میں حکومت سے کہا گیا ہے کہ ٹرانسپلانٹ کے قانون پر پوری طرح عمل درآمد کروایا جائے۔ سپریم کورٹ نے تمام صوبائی حکومتوں کو اس قانون کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے جولائی میں ایک حکم بھی جاری کیا ہے۔
ایک پاکستانی اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق نیشنل ہیومن آرگنز ٹرانسپلانٹ اتھارٹی کے مطابق سن 2010میں گردوں کی پیوند کاری کے 42 آپریشن میں 14 غیر قانونی انداز میں مکمل کیے گئے تھے۔ عالمی ادارہٴ صحت کی ایک رپورٹ میں واضح کیا گیا تھا کہ دنیا بھر میں انسانی اعضاء کی غیرقانونی تجارت کے سالانہ بنیادوں پر دس ہزار سے زائد واقعات رونما ہوتے ہیں۔ ایسے غیر قانونی دھندے میں نیپال، چین، بھارت اور پاکستان بھی شامل ہیں۔
ah/km(IPS)