1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں انسانی حقوق: ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے

شیراز راج برسلز
9 دسمبر 2018

مبصرین کے مطابق پاکستانی ریاست قومی سلامتی کے نام پر عوام کے آئینی، شہری اور جمہوری حقوق سلب کر رہی ہے اور عوام کو بنیادی ضروریات کی فراہمی میں ناکام ہو چکی ہے جبکہ زباں بند معاشرہ تقسیم در تقسیم کا شکار ہے۔

https://p.dw.com/p/39m1h
پاکستان میں جبری گمشدگیاں: لاپتہ افراد کے اہل خانہ کا احتجاج، فائل فوٹوتصویر: DW/I. Jabeen

اس کے علاوہ ملکی معیشت بھی ریاستی پالیسیوں تلے سسک رہی ہے۔ انسانی حقوق محض چند قوانین اور ان سے متعلقہ اصطلاحات کے مجموعے کا نام نہیں اور نہ ہی انہیں چند وزارتوں، محکموں، کمشنوں یا غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ مخصوص کیا جا سکتا ہے۔ یہ کوئی بیرونی ایجنڈا یا سازش بھی نہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی حقوق کا تصور پاکستان کے اثبات کا ورثہ ہے۔ احترام آدمیت، وقار انسانی، مساوات، انصاف، انسان دوستی، روشن خیالی اور جمہوریت نوازی کو ’مغربی سازش‘ قرار دینا اپنی مذہبی، تہذیبی اور ثقافتی قدروں کی توہین کے مترادف ہے۔

پاکستان کی تحریک آزادی کے معماروں نے ایک اقلیت کے حقوق کی آواز اٹھائی تھی، انسانی مساوات اور عوام کے حق حکمرانی کا مطالبہ کیا تھا۔ قائد اعظم کہلانے والے بانی پاکستان محمد علی جناح نے ایک سیکولر، ترقی پسند اور جمہوری مملکت کی تشکیل کو اپنا نصب العین قرار دیا تھا۔ اسی طرح آئین پاکستان (1973) میں دیے گئے انسانی حقوق بھی کسی بیرونی دباؤ کا نتیجہ نہیں۔

پاکستان کا آئین قانونی مساوات کی ضمانت دیتا ہے، پارلیمانی جمہوریت کی بالادستی طے کرتا ہے، ریاستی اداروں کے اختیارات و حدود واضح کرتا ہے اور تمام تر بنیادی حقوق کی یقین دہانی کراتا ہے، جیسے کہ حق زندگی، مساوی اور منصفانہ قانونی حقوق، آزادی رائے، تعصب اور امتیازی سلوک سے آزادی اور تنظیم سازی وغیرہ کے حقوق۔

Pakistan Protest Steinigung einer schwangeren Frau
غیرت کے نام پر پاکستانی خواتین کے قتل کے خلاف احتجاجتصویر: Reuters

پاکستان نے جب انسانی حقوق کے مشترکہ اعلامیے پر دستخط کیے تھے، تو اس پر کوئی بیرونی دباؤ نہیں تھا۔ اسی طرح پاکستان نے اس اعلامیے سے متعلق تمام تر اہم دستاویزات پر دستخط کر رکھے ہیں، جن میں شہری و سیاسی حقوق کا اعلامیہ، معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق کا اعلامیہ، صنفی امتیاز کے خاتمہ کا اعلامیہ، حقوق اطفال کا اعلامیہ، تشدد سے تحفظ کا اعلامیہ اور نسل پرستی کی بنیاد پر امتیازی سلوک سے تحفظ کا اعلامیہ بھی شامل ہیں۔

انسانی حقوق کمیشن کی حالیہ رپورٹ

گزشتہ ماہ کی 13 تاریخ کو ای یو (یورپی یونین) پاکستان مشترکہ کمشن کے ضمنی گروپ کے آٹھویں اجلاس کے موقع پر انٹرنیشنل فیڈریشن فار ہیومن رائٹس اور پاکستان انسانی حقوق کمشن نے 2018 میں پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال پر ایک مشترکہ رپورٹ جاری کی، جس کے مندرجات کا سرسری جائزہ پیش کرنا یہاں اس لیے ضروری ہے کہ یہ دونوں ادارے انتہائی معتبر گردانے جاتے ہیں، جن کے دامن پر دروغ گوئی یا جانب داری کا کوئی داغ نہیں ہے۔

اس رپورٹ میں جمہوری حقوق کی بات کرتے ہوئے حالیہ عام انتخابات کا مختصر مگر جامع تجزیہ کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ انتخابات گو کم و بیش پرامن رہے مگر نتائج کے اعلان میں غیر معمولی تاخیر، عین موقع پر آر ٹی ایس سسٹم میں خرابی، پولنگ ایجنٹوں کی غیرموجودگی میں ووٹوں کی گنتی اور فارم 45 کی عدم دستیابی نے سنگین شبہات کو جنم دیا۔

رپورٹ میں الیکشن کمیشن کی جانب سے فوجی اہلکاروں کی غیر معمولی طور پر بڑی تعداد میں تعیناتی پر تنقید کی گئی، جو پولنگ اسٹیشنوں کے اندر موجود تھے اور جنہیں مجسٹریٹ کے اختیارات حاصل تھے۔

لاپتہ افراد کا ذکر کرتے ہوئے اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مارچ 2011 میں قائم کردہ عدالتی کمیشن کو 5290 درخواستیں موصول ہوئیں۔ کمیشن کئی کیسوں کو نمٹانے کا دعوے دار ہے مگر انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ لاپتہ افراد کی حقیقی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ گمشدگی کے واقعات کی ٹھوس تحقیقات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

Pakistan Pressebilder der Menschenrechtskommision Pakistans
تصویر: HRCP

لاپتہ افراد کے اہل خانہ کو نہ صرف کوئی بھی مالی معاونت حاصل نہیں بلکہ انہیں اپنے لیے انصاف کے حصول کی کوششوں کے دوران ڈرایا دھمکایا بھی جاتا ہے۔ موجودہ قوانین فوج کو غیر معینہ مدت کے لیے اور کسی بھی عدالتی کارروائی کے بغیر کسی کو بھی گرفتار کر لینے کا اختیار دیتے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان نے ابھی تک جبری گمشدگی کے خلاف تحفظ کے عالمی اعلامیے پر بھی دستخط نہیں کیے۔

پاکستان سزائے موت پر عمل درآمد کرنے والے پانچ سرفہرست ممالک میں شامل ہے حالانکہ اس نے شہری اور سیاسی حقوق کے اعلامیے اور غیرانسانی اور بھیانک سزاؤں کے خلاف اعلامیے پر بھی دستخط کر رکھے ہیں۔ دو ہزار اٹھارہ میں 124 افراد کو سزائے موت سنائی گئی اور 10 افراد کو پھانسی دی گئی۔ اکتوبر 2018 تک فوجی عدالتوں کی جانب سے سزائے موت پانے والے 43 افراد کو پھانسی دی جا چکی تھی۔ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں نے 37 افراد کو سزائے موت سنائی۔

اظہار رائے کے حق کے حوالے سے اس رپورٹ میں انتہائی سنگین صورتحال کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ریاست، حکومت اور حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرنے والے صحافیوں، بلاگروں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور سیاسی کارکنوں کو دھونس دھاندلی، جبر و تشدد، اغوا، قتل اور جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پانچ جون 2018 کو، عینی شاہدین کے مطابق، خاتون صحافی گل بخاری کو اغوا کیا گیا۔ انہیں چند گھنٹوں بعد رہائی مل گئی لیکن اغوا کاروں کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔

Journalisten protestieren in Pakistan Pressefreiheit Zensur
’پاکستان میں میڈیا کا گلا دبانے کے لیے معاشی ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں‘تصویر: picture-alliance/dpa/A.Arbab

اس رپورٹ میں پاکستان کے ڈان میڈیا گروپ کے صحافی سرل المائڈا کے وارنٹ گرفتاری اور ان پر غداری کے مقدمے کا حوالہ بھی دیا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کس طرح سابق وزیر اعظم نواز شریف کا ایک انٹرویو کرنے کے بعد بیس شہروں اور قصبوں میں ڈان اخبار کی ترسیل میں رکاوٹیں ڈالی گئیں۔ اپریل میں جیو ٹیلی وژن کو کیبل آپریٹروں نے صوابدیدی طور پر بند کر دیا، جسے بعد ازاں مبینہ طور پر ریاستی اداروں کے ساتھ ’ڈیل‘ کے بعد کھولا جا سکا۔

2016 میں ایک قانون بنایا گیا، جس کے تحت ڈیجیٹل حقوق پر تلوار لٹکا دی گئی۔ پاکستان میں اٹھارہ غیر ملکی امدادی اداروں کو اپنی کارروائیاں بند کرنے کا حکم جاری کیا گیا۔ رپورٹ میں 2018 کے دوران عورتوں اور بچوں کے حقوق کی پامالیوں کی تفصیلات بھی شامل ہیں۔

ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے

ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے پاکستانی صحافیوں کی نمائندہ تنظیم پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ کا کہنا تھا کہ پاکستانی صحافت کو ایک غیر مرئی سنسرشپ کا سامنا ہے، جو انتہائی خطرناک ہے۔ ان کا کہنا ہے، ’’پاکستان میں پہلی مرتبہ میڈیا کا گلا دبانے کے لیے معاشی ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ سرکاری اور نجی اشتہارات کو ملا کر میڈیا کی اس مد میں سالانہ آمدنی قریب 80 ارب روپے بنتی ہے۔ اس میں حکومتی اشتہارات کے تقریباﹰ چالیس ارب روپے بھی شامل ہیں۔ اب حکومت کہتی ہے کہ وہ سات ارب روپے سے زائد کے اشتہارات نہیں دے گی۔ دوسری طرف نجی کمپنیوں پر بھی دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ تمام اخبارات اپنی اشاعت کے چار چار صفحات کم کر چکے ہیں اور ٹیلی وژن چینلوں سے بھی صحافیوں کو نکالا جا رہا ہے۔ اس وقت پاکستان میں آزادی رائے اور آزادی صحافت بالکل ختم ہو چکی ہے۔‘‘

ڈی ڈبلیو اردو کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے صنفی حقوق کی سرکردہ کارکن اور ماہر تعلیم ڈاکٹر فرزانہ باری کا کہنا تھا کہ پاکستانی معاشرہ پہلے سے زیادہ پرتشدد ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ملک میں انتہا پسندی بڑھی ہے۔ ریاست عدم مساوات، غربت اور بے روزگاری کی روک تھام میں ناکام رہی ہے۔ اس وقت خود ریاست انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث ہے۔ جبری گمشدگیوں کا معاملہ انتہائی سنگین ہو چکا ہے۔ تنقید کرنے والوں کو بھی غائب کیا جا رہا ہے۔ ریاست جیسے جیسے عوام کو ان کے حقوق کی فراہمی میں ناکام ہو رہی ہے، ویسے ویسے اس کی قوت برداشت میں بھی کمی ہو رہی ہے۔‘‘ فرزانہ باری کے مطابق خواتین کے حوالے سے کچھ اچھی قانون سازی ہوئی ہے تاہم اس پر عمل درآمد تاحال ایک چیلنج ہے۔

معروف صحافی اور دانشور وجاہت مسعود نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ ریاست کا معاشی اور سماجی ماڈل عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے میں ناکام ہو گیا ہے لیکن ’’اسے درست کرنے کے بجائے، اس پر تنقید کرنے والوں کو خاموش کرایا جا رہا ہے اور مزاحمت اور ردعمل کے راستے مسدود کیے جا رہے ہیں۔‘‘

وجاہت مسعود کے مطابق، ’’صحافت ہو، سیاسی جماعتیں ہوں، وکلاء تنظیمیں ہوں یا انسانی حقوق کے ادارے، سبھی اس دباؤ کا شکار ہیں۔‘‘ انہوں نے حالیہ حالات و واقعات کے تناظر میں یہ بھی کہا، ’’پاکستان اس وقت آسیہ بی بی کے حق انصاف اور تحریک لبیک کی مذہبی انتہا پسندی کے دوراہے پر کھڑا ہے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں